اداب نبوت کے خلاف سمجھتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حکیم موصوف مرزاقادیانی کی ذات میں نبوت کو تسلیم کرتے تھے۔ ورنہ نبوت کا ادب کیسا۔ حکیم موصوف مرزاقادیانی کو نبی تسلیم کرتے ہیں۔ تب ہی تو سوال کرنے سے آداب نبوت مانع ہے۔ دوسرے حضرت عمرؓ کے کلمات میں سے نبی کریمﷺ کو نعوذ باﷲ خارج کر کے غلام احمد کا کلمہ پڑھا اور ان کی نبوت کو عروج دیا۔ آج لاہوری کہتے ہیں کہ مرزامحمود اپنے باپ کو نبی بناتے ہیں۔ نبی تو دراصل حکیم نورالدین اور مسٹر محمد علی نے بنایا ہے۔
اور سنئے، حکیم صاحب فرماتے ہیں: ’’یہ بات توبالکل غلط ہے کہ ہمارے اور غیراحمدیوں کے درمیان کوئی فروعی اختلاف ہے۔ کیونکہ جس طرح پر وہ نماز پڑھتے ہیں ہم بھی اسی طرح نماز پڑھتے ہیں اور زکوٰۃ اور حج اور روزوں کے متعلق ہمارے اور ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔ میری سمجھ میں ہمارے اور ان کے درمیان اصول فرق ہے اور وہ یہ ہے کہ ایمان کے لئے یہ ضروری ہے کہ اﷲتعالیٰ پر ایمان ہو۔ اس کے ملائکہ پر کتب سماویہ پر اور اس کے رسل پر۔ خیروشر کے اندازہ پر اور بعث بعد الموت پر۔ اب غور طلب امر یہ ہے کہ ہمارے مخالف بھی یہ ہی امر مانتے ہیں اور اس کا دعویٰ کرتے ہیں۔ لیکن یہاں سے ہی ہمارا ان کا اختلاف شروع ہو جاتا ہے۔ ایمان بالرسل اگر نہ ہو تو کوئی شخص مومن مسلمان نہیں ہوسکتا اور اس ایمان بالرسل میں کوئی تخصیص نہیں، عام ہے۔ خواہ وہ نبی پہلے آئے یا بعد میں آئے۔ ہندوستان میں ہو یا اور ملک میں کسی مامور من اﷲ کا انکار کفرہو جاتا ہے۔ ہمارے مخالف مرزاقادیانی کی ماموریت کے منکر ہیں۔ بتاؤ کہ یہ اختلاف فروعی کیونکر ہوا۔ قرآن مجید میں تو لکھا ہے: ’’لا نفرق بین احد من رسلہ‘‘ اس لئے میں تو اپنے اور غیراحمدیوں کے درمیان اصولی فرق سمجھتا ہوں۔‘‘
(الحکم نمبر۸ ج۱۵، مورخہ ۷؍مارچ ۱۹۱۱ئ، مجموعہ فتاوی احمدیہ ج۱ ص۲۷۴)
اس عبارت سے ظاہر ہے کہ حکیم نورالدین مرزاغلام احمد کو ’’لانفرق بین احد من رسلہ‘‘ میں داخل سمجھتے ہیں۔ یعنی مرزاقادیانی حقیقی نبی ہیں اور احمدیوں اور غیراحمدیوں میں اصولی فرق قرار دیتے ہیں۔ محض مرزاقادیانی کے انکار پر اصولی اختلاف تسلیم کیا ہے۔ نماز، روزہ، حج وغیرہ میں تو کوئی اختلاف نہیں۔ صرف مرزاقادیانی کی نبوت کا اختلاف ہے۔
مرزاقادیانی نے اپنی نبوت ومسیحیت منوانے کیلئے تمام اسلامی دنیا کو کافر قرار دیا
اور اپنی جماعت کو حکم دیا کہ جو لوگ ہماری مسیحیت ونبوت سے منکر ہیں ان کے ساتھ