نبی بنادیں۔ یہ عبارت بھی یہی فیصلہ دیتی ہے کہ ظلی نبی اور محدث ایک چیز نہیں۔ بلکہ دو جداجدا چیزیں ہیں۔ بعض لاہوری جان بچانے کے لئے کہہ دیا کرتے ہیں کہ پہلی امتوں میں محدث کم ہوئے ہیں۔ جناب کیسے معلوم ہوا کہ کم ہوئے ہیں۔ حدیث میں تو پہلی امتوں کے لئے محدثوں بصیغۂ جمع وارد ہے اور اس امت میں صرف حضرت عمرؓ کا نام بتلایا ہے۔ لیکن ہم کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کے بعد اور بھی بہت محدث ہوئے ہیں۔ لو سنو! مرزاقادیانی کیافرماتے ہیں؟: ’’اور مختلف بلاد کے نبیوں اور مرسلوں اور محدثوں کو چھوڑ کر اگر صرف بنی اسرائیل کے نبیوں اور مرسلوں اور محدثوں پر ہی نظر ڈالی جائے تو ان کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ چودہ سو برس کے عرصہ میں یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام سے حضرت مسیح علیہ السلام تک ہزارہا نبی اور محدث ان میں پیدا ہوئے۔‘‘
(شہادۃ القرآن ص۴۶، خزائن ج۶ ص۳۴۲)
اس عبارت سے ظاہر ہے کہ نبی اسرائیل ہی میں ہزاروں نبی اور محدث پیدا ہوئے اور امتوں کو مرزاقادیانی نے چھوڑ دیا ہے۔ ضد کا ہمارے پاس کوئی علاج نہیں۔ لیکن ہم نے ایک منصف مزاج آدمی کے لئے کافی دلائل پیش کر کے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ ظلی نبی یا امتی نبی محدث کو ہرگز نہیں کہہ سکتے۔
مسٹر شیر علی صاحب بی۔اے کی شہادت مرزاقادیانی کی زندگی میں کہ
مرزاقادیانی کو نبوت کا دعویٰ ہے
چنانچہ فرماتے ہیں: ’’بحالات موجودہ بالا حضرت ممدوح کے صادق ومصدق نبی ہونے میں ذرا بھر شک نہیں رہتا۔ پس جب کہ ہر ایک پہلو سے ان کی نبوت کا دعویٰ سچا ثابت ہوتا ہے تو کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ انہیں مسیح موعود تسلیم نہ کیاجائے۔‘‘
(ریویو آف ریلجنز ج۶ نمبر۱، جنوری ۱۹۰۷ء ص۲۵)
اور سنئے، فرماتے ہیں: ’’لیکن چونکہ حضرت مسیح موعود کی تمام پیش گوئیاں بلا استثناء ہمیشہ پوری نکلتی رہیں۔ اس لئے اس کا نتیجہ صرف یہ ہے کہ وہ سچے نبی ہیں۔‘‘ (ریویو مذکور ص۲۱)
اور سنئے، فرماتے ہیں: ’’اگر آپ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان ہے تو آپ کو مرزاقادیانی کی نبوت پر بھی لازماً ایمان لانا پڑے گا۔‘‘
(ریویو مذکور ص۳۵)