میں بول وبراز کی صورت ہی نہ تھی۔
۴… ہجرت کے وقت دشمنوں کے محاصرہ سے نکل گئے۔ کوئی دیکھ نہ سکا۔ آپ کا جسم ملکوتی آنکھوں سے اوجھل ہوگیا۔
۵… غار ثور میں داخلہ ہوا تو لکڑی کا جالا بھی نہ ٹوٹنے پایا۔ یہ ٹھیک نہیں کہ مکڑی نے بعد میں جالا بنایا۔ آپؐ کی شان اس سے ارفع تھی کہ مکڑی کے رہین منت ہوں۔ صدیقؓ کے جسم میں بھی جمال ہم نشین کے پر تو پڑنے سے وہی لطافت پیدا ہوگئی۔ دونوں یار داخل غار ہو گئے۔ تار عنکبوت ٹوٹنے نہ پایا۔
۶… جس وقت دشمن غار کے سر پر جاکھڑے ہوئے تو بھی دونوں دوستوں کو بوجہ لطافت جسم دیکھ نہ سکے۔ حالانکہ دونوں ان کو دیکھ رہے تھے۔
۷… جنگ احد میں عبداﷲ بن شہاب حضرتؐ کو ڈھونڈتا تھا۔ گو کہ آنجنابؐ اس کے بازو ببازو کھڑے ہوئے تھے دیکھ نہ سکا۔
۸… ایک روز ابوجہل ایذا دہی کے لئے گیا۔ حضورؐ قرآن پڑھ رہے تھے ابوجہل کونظر نہ آئے۔ بے نیل مرام واپس چلا گیا۔ ’’فاذا قرأت القرآن جعلنا بینک وبین الذین لا یؤمنون بالآخرۃ حجابا مسطوراً‘‘
۹… ہر چند آپ کا قددرمیانہ تھا۔ مجمع میں جب آپ چلتے سب سے اونچے نظر آتے تھے۔ چونکہ آپؐ مجسم روح تھے۔ اس لئے چھوٹا بڑا ہو جانا کچھ دشوار نہ تھا۔
۱۰… آپؐ کے جسم اطہر پر مکھی نہ بیٹھ سکتی تھی کیونکہ کثافت نہ تھی۔
۱۱… اسی لطافت کے باعث آپؐ کا سایہ نہ تھا۔ روح کا سایہ کس طرح ہو۔
۱۲… شق صدر ہو کر تمام سفلی آلائشوں سے پاک ہو گئے۔ پھر معراج جسمی ہوئی اور عرش معلّٰے تک جا پہنچے۔
رفع جسمی پر اعتراض اور اس کا جواب
۱… چونکہ افلاک پر پانی اور ہوا نہیں۔ اس لئے کوئی انسان وہاں پہنچ کر زندہ نہیں رہ سکتا۔
جواب… یہ صرف یونانیوں کا خیال ہے۔ قرآن میں وہاں انہار اور جنات کا موجود ہونا اور الوان نعمت کا مہیّا ہونا ثابت ہے۔ پھر قرآن کو پس پشت ڈال کر فلسفہ یونان سے تمسک ایک مسلمان کا کام نہیں۔ دوم علوم جدیدہ بھی قرآن پاک کی تائید کر رہے ہیں۔ ہیئت دانوں نے جب دوربین لگاکر دیکھا تو چاند اور مریخ میں پہاڑیاں دریا اور آگ سب کچھ نظر آئے۔ پھر وہاں ہوا