بیان مصدقہ عدالت سے بھی ہوتی ہے۔ اس چٹھی کے لکھنے کی ضرورت آپ کو اس لئے عائد ہوئی کہ سراج الاخبار جہلم مطبوعہ ۱۹؍جنوری ۱۹۰۳ء کے بہرہ لوکل میں ایک مختصر مضمون حسب ذیل شائع ہوا تھا۔
’’۱۷؍جنوری کو جہلم میں اس معرکہ کے مقدمہ کی پیشی تھی جس میں مولوی محمد کرم الدین صاحب مستغیث اور مرزاغلام احمد قادیانی وغیرہ مستغاث علیہ تھے۔ مرزاقادیانی کی جماعت ۱۶کو ۲؍بجے کی گاڑی پر پہنچ گئے ہوئے تھی۔ اس مقدمہ کو سننے کے لئے بے حد خلق خدا جہلم میں جمع ہوگئی تھی۔ بازاروں اور سڑکوں پر آدمی ہی آدمی نظر آتا تھا۔ مولوی محمد کرم الدین صاحب معہ اپنے معزز گواہان کے ۱۰؍بجے بگھی کی سواری میں بہمراہی چوہدری غلام قادر خان سب رجسٹرار جہلم وراجہ محمد خاں صاحب رئیس سنگھوٹی کچہری کی طرف روانہ ہوئے۔ خلق خدا شہر سے شروع ہوکر کچہری تک دورویہ صف بستہ مولوی صاحب موصوف کے دیدار کے لئے کھڑی ہوئی تھی۔ سب لوگ آپ کی زیارت سے مشرف ہوتے رہے۔ اس مضمون کی نقل اخبار عام مطبوعہ ۲۷؍جنوری میں شائع ہوئی اور مرزاقادیانی اس میں اپنے فریق مقابل (مولوی محمد کرم الدین صاحب) کا ذکر پڑھ کر نار حسد سے ایسے جل بھن گئے کہ ایڈیٹر اخبار عام کے نام اپنی دستخطی ایک چٹھی لکھی کہ آپ نے یہ بینظیر جھوٹ شائع کیا ہے کہ جہلم میں لوگ مقدمہ سننے کے لئے جمع ہوئے تھے اور کرم الدین کے دیدار کو بھی آتے تھے۔ بلکہ یہ سب لوگ تو میرے دیکھنے کے لئے آئے تھے۔ وغیرہ، وغیرہ!‘‘
اب ناظرین خیال فرماویں کہ جو لوگ اہل اﷲ ہوں وہ ایسے خواہشات نفسانیہ کے کب مغلوب ہوتے ہیں اور دنیوی اعزاز کو وہ بمقابلہ اس سچی عزت کے جو بارگاہ الٰہی میں ان کو حاصل ہوتی ہے۔ بالکلیہ ہیچ سمجھتے ہیں۔ خود ستائی اور تعلیّٰ ان سے کبھی سرزد نہیں ہوتی۔ لیکن مرزاقادیانی ہی وہ شخص ہیں جو چاہتے ہیں کہ دینی اور دنیوی عزتیں انہی کو حاصل ہوں اور ان کے سامنے کسی دوسرے شخص کا نام تک نہ لیا جائے۔ امید ہے کہ ناظرین اس چٹھی کو غور سے پڑھ کر اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ مرزاقادیانی کو روحانیت سے مس تک نہیں اور وہ نفسانیت کے زنجیر میں ازسر تاپا جکڑے ہوئے ہیں۔
مرزاقادیانی کی چٹھی اخبار عام میں
’’مقدمہ جہلم کی غلط فہمی ایڈیٹر صاحب بعد ماوجب آج آپ کے پرچہ اخبار عام