ہاتھوں پر ڈال لیا اور وہاں قبضہ جمالیا اور یہاں عجیب سبز باغ دکھائے۔ برلن کی مسجد کے قالینوں کے لئے چندہ جمع کرتے رہے اور کہتے رہے کہ وہاں سردی زیادہ ہوتی ہے۔ اس لئے قالینوں پر نماز پڑھی جاتی ہے۔ لندن کی مسجد کے پردوں کے لئے روپوں کی ضرورت ظاہر کی جاتی رہی۔ مگر وہاں یہ سب روپے جو مرزائیوں کے نہیں بلکہ مسلمانوں کی جیبوں سے مرزائی نکال لیتے ہیں جاکر سوٹوں اور کھیلوں اور تفریحوں پر صرف کئے جاتے ہیں۔
ایک نیک مشورہ
اس لئے ہندوستان کے مسلمانوں کو چاہئے کہ غیروں کو چندہ نہ دیں۔ بلکہ اگر سب مسلمان مل کر ایک آنہ ماہوار فی کس کے حساب سے ایک فنڈ میں جمع کر دیا کریں تو ہندوستان کے آٹھ کروڑ سے اوپر مسلمانوں کے آٹھ کروڑ آنہ کی رقم سے کون سا بڑے سے بڑا ہسپتال، یتیم خانہ، بیوہ خانہ، مسافر خانہ یا سکول قائم نہیں ہوسکتا۔ یقینا صرف اس طریقہ سے دوتین سال ایک ایک آنہ جمع کرنے سے مسلمان دنوں میں اس قابل ہو جائیں گے کہ پھر یہ قوم کبھی گرہی نہ سکے گی۔
مرزاغلام احمد قادیانی کی پیش گوئیوں کے نتائج
مسلمانوں کی ذہنیت اس قدر ناقص ہوچکی ہے کہ وہ مرزائیوں کے پیچھے فوراً لگ جاتے ہیں اور ان کی باتوں کا فوری یقین کر لیتے ہیں اور نہیں دیکھتے کہ یہ کس شخص کے پیروکار ہیں۔ مرزاغلام احمد قادیانی کی دعاؤں کو خدا کے حضور جو قبولیت حاصل تھی اس کے ثبوت میں اس کی چند پیش گوئیاں اور ان کے نتائج درج ہیں۔
مرزاقادیانی نے (اشتہار مورخہ ۱۵؍اپریل ۱۹۰۷ئ، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۷۸،۵۷۹) میں بہت لمبی چوڑی دعا اور پیش گوئی شائع کی کہ ائے خدا اگر میں سچا نبی ہوں تو مولوی ثناء اﷲ صاحب کو تو مرض ہیضہ یا طاعون میں مبتلا کر کے مجھ سے پہلے موت دے دے۔ چنانچہ مرزاقادیانی اسی سال کے اندر مرض ہیضہ میں مبتلا ہوکر مر گئے۔ حالانکہ مرزاقادیانی کی یہ پیش گوئی تھی کہ لعنتی اور ملعون طاعون اور ہیضہ سے مرے گا۔ اس کے بعد مرزاقادیانی کے متعلق ڈاکٹر عبدالحکیم خان نے جو تقریباً بیس سال تک ان کے مریدوں میں شامل رہے بلکہ بعد میں مرزائیت سے توبہ کر کے سچے مسلمان بن گئے۔ مرزاقادیانی کے لئے پیش گوئی کی کہ مرزا تین سال کے اندر فوت ہو جائے گا۔ ادھر مرزاقادیانی نے کہا کہ اگر تو سچا ہوگا تو میں تین سال کے اندر مر جاؤں گا اور اگر میں سچا ہوا تو مجھ سے پہلے مر جائے گا۔ غلام احمد قادیانی کا اشتہار بعنوان خدا سچے کا حامی ہو۔
(مورخہ ۱۶؍اگست ۱۹۰۶ئ، مندرجہ تبلیغ رسالت ج۱۰ ص۱۰۰، مجموعہ اشتہارات ص۵۵۷ تا۵۵۹)