مردے جلائے تھے۔ ان میں سے ایک حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے بھی تھے۔ جن کی وفات کو چار ہزار برس گزرے تھے۔‘‘
مرزاقادیانی کا اپنی نسبت اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا فتویٰ کفر
ہم اب اس فتوے کو لکھتے ہیں جس کا وعدہ صفحہ کے اخیر پر کیاگیا تھا اور یہ وہ فتویٰ ہے جو مرزاقادیانی نے گویا اپنے ہاتھ سے لکھ کر اپنے کفرنامہ پر مہر کر دی ہے اور اب مسلمانوں کو کوئی ضرورت نہیں ہے کہ امام الزمان (مرزاقادیانی) کے اپنے ہاتھ کے لکھے ہوئے فتوے تکفیر کے مقابلہ میں دوسرے علماء سے فتوے پوچھتے پھریں کہ مرزاقادیانی کافر ہیں یا نہ۔
یہ پہلے لکھا جاچکا ہے کہ مرزاقادیانی نے اب صریح طور پر دعویٰ نبوت ورسالت کر دیا ہے۔ جیسا کہ اثنائے مقدمہ میں انہوں نے اپنی بحث تحریری میں لکھ دیا ہے اور پھر ان کے مخلص حواری مولوی محمد علی وکیل نے اپنی شہادت میں کہہ دیا ہے اور پھر فہرست عقائد میں بھی رسالت کا دعویٰ کیاگیا۔ گو بروزی کی قید ہی سہی لیکن مرزاقادیانی پر ایک ایسا زمانہ بھی تھا جس وقت آپ کو دعویٰ نبوت ورسالت پر ان کی کانشس ملامت کرتی تھی اور آیات قرآنی آپ کو اس بیجا ادّعاء پر ڈانٹ بتلاتی تھیں۔ اس زمانہ میں آپ پکار پکار کر کہتے تھے کہ مجھے اﷲ جل شانہ کی قسم ہے میں کافر نہیں: ’’لا الہ الا اﷲ محمد رسول‘‘ میرا عقیدہ ہے اور ’’لکن الرسول اﷲ وخاتم النّبیین‘‘ پر آنحضرتﷺ کی نسبت میرا ایمان ہے۔ (کرامات الصادقین ص۲۵، خزائن ج۷ ص۶۷)
بلکہ آپ نے صاف طور پر لکھ دیا تھا ’’اعلم یا اخی انی ما ادّعیت النبوۃ وما قلت لہم انی نبی‘‘ (حمامتہ البشریٰ ص۷۹، خزائن ج۷ ص۲۹۷)
ترجمہ: بھائی میں نے نبوت کا دعویٰ نہیں کیااور ان کو نہیں کہا کہ میں نبی ہوں۔
اور پھر اسی کتاب کے صفحہ مذکور پر دعویٰ نبوت کرنے کو کفر لکھا اور خود کو ایسے دعویٰ کفر سے بری کیا۔ ان کی وہ عبارت عربی بجنسہ درج ذیل کر کے اس کا ترجمہ دیا جاتا ہے۔ ’’وما کان لی ان ادّعی النبوۃ واخرج من الاسلام والحق بقوم کافرین وہا اننی لا اصدق الہاماً من الہاماتی الا بعد ان اعرضہ علے کتاب اﷲ واعلم انہ کلما یخالف القرآن فہو کذب والحاد وزندقہ فکیف ادّعی النبوۃ وانا من المسلمین‘‘ (حمامۃ البشریٰ ص۷۹، خزائن ج۷ ص۲۹۷)مجھے کیا حق ہے کہ نبوت کا دعویٰ کروں اور اسلام سے خارج ہوں اور قوم کفار میں شامل ہوں اور میں اپنے کسی الہام کو سچا نہیں کہتا جب تک اس کو کتاب اﷲ پر پیش نہ کروں اور واضح ہو کہ جو کچھ قرآن کے مخالف ہے وہ جھوٹ ہے الحاد وبے