ان گواہوں کے متعلق صرف اس قدر کہہ دینا ضروری ہے کہ بالعموم اپنے بیانات میں انہوں نے لکھا یا کہ نو دس سال کے زائد عرصہ سے مرزاقادیانی کی تصانیف حکیم فضل دین ہی سے کتب مؤلفہ مرزاقادیانی منگوایا کرتے ہیں اور اسی کو قیمت بھیجا کرتے ہیں۔ لیکن مرزاقادیانی اپنے بیان میں (بمقدمہ ۴۱۷) صاف لکھاتے ہیں کہ ۱۹۰۱ء سے پہلے جو دفتر میں کتابیں تھیں۔ ان کی فروخت کسی میرے آدمی کی معرفت ہوتی تھی۔ مگر ۱۹۰۱ء کے بعد پھر میں نے یہ انتظام کیا کہ یہ تمام کتابیں حکیم فضل دین کے سپرد کر دیں کہ وہ فروخت کرے۔ ملاحظہ ہو صفحہ۴۳، مقدمہ ۱۲۰، سطر۷،۸۔ لیکن گواہان، ۱۹۰۱ء سے پہلے کئی سالوں سے برخلاف قول مرزاقادیانی فضل دین ہی سے کتابیں لینا بیان کرتے ہیں اور طرفہ یہ کہ بیان قیمت کتب میں بعض گواہان نے سخت ٹھوکریں کھائیں۔ چنانچہ حکیم محمد حسین گواہ نے اعجاز المسیح ایک تازہ تصنیف کی قیمت ۴آنے بیان کی جس کی قیمت بقول حکیم فضل دین ایک روپیہ ہے۔ غرض یہ مقدمہ بھی ۴۱۷ والے مقدمہ کی طرح خارج ہوکر مرزا اور مرزائیوں کی رسوائی کا باعث ہوا۔
مرزائیوں کا تیسرا مقدمہ فوجداری
تیسرا مقدمہ شیخ یعقوب علی تراب ایڈیٹر اخبار الحکم کی طرف سے بحکم مرزاقادیانی میرے اور مولوی فقیر محمد صاحب کے خلاف زیردفعہ ۵۰۰ تعزیرات ہند ازالہ حیثیت عرفی دائر کیاگیا۔ اس مقدمہ میں صاحب مجسٹریٹ نے مستغاث علیہما کو چالیس اور پچاس روپے کا جرمانہ کیا۔ جس کی اپیل نہیں کی گئی۔ اس مقدمہ میں بھی عجیب عجیب انکشافات ہوئے۔ مرزاقادیانی کو بھی شہادت صفائی میں پیش کر کے آپ پر زبردست جرح کی گئی۔ (یہ بیان درج ہوگا) شیخ یعقوب علی تراب قادیان میں تو بڑے رکن رکین اور جنٹلمین بنے ہوئے تھے۔ لیکن ہم کو بتانے والوں نے جب آپ کا اتا پتہ بتایا تو معلوم ہوا کہ آپ ذات کے مراسی ہیں۔ جب سوالات جرح میں آپ سے سوال کیاگیا کہ آپ کی ذات مراسی ہے تو خواجہ کمال الدین صاحب بڑے خفا ہو کر عدالت سے کہنے لگے کہ یہ دوسرا لائبل ہے۔ عرض کی گئی کہ آپ گھبرائیں نہیں ہمارے پاس اس کا ثبوت ہے اور اس کے متعلق ہم تراب صاحب کے والد ماجد کو طلب کراکر آپ کو ان کی زیارت کرائیں گے اور ان کے منہ سے اس امر کی کہ آپ مراسی ہیں تصدیق کرائیں گے۔ تراب صاحب دراصل ضلع جالندھر میں ایک موضع جاڈلہ کے باشندہ ہیں۔ پیدا ہوتے ہی برخوردار کا نام ’’چھجو‘‘ رکھا گیا۔ آپ کے والد کا نام چٹو اور دادا کا نام تانا تھا اور ذات شریف میراسی تھی۔