۱۴… ’’انی مع الرسول اجیب اخطی واصیب‘‘ میں رسول کے ساتھ ہوکر جواب دوں گا۔ خطا بھی کروں گا اور صواب بھی۔ (حقیقت الوحی ص۱۰۳، خزائن ج۲۲ ص۱۰۶)
۱۵… ’’انی مع الرسول اقوم افطروا صوم‘‘ میں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں گا۔ افطار کروں گا اور روزہ بھی رکھوں گا۔ (حقیقت الوحی ص۱۰۳،۱۰۴، خزائن ج۲۲ ص۱۰۷)
یہ ایسے کھلے الفاظ وکلمات ہیں کہ ان کو دیکھ کر کوئی ذی بصیرت مرزاقادیانی کے ادّعا نبوت ورسالت میں شک وشبہ نہیں کر سکتا۔ لیکن تعجب ہے کہ باوجود ان تصریحات کے مرزاقادیانی کی امت کا ایک فریق لاہوری جماعت اس پر پردہ ڈالنے کی سعی بے سود کر رہے ہیں اور لکھتے ہیں کہ مرزاقادیانی نے ہرگز نبوت ورسالت کا دعویٰ نہیں کیا۔ امت بیچاری کا کیا قصور ؎
چہ دلاور است دزدے کہ بکف چراغ دارد
مرزاقادیانی خود ایسے خدا کے بندے ہیں کہ ایسے الہامات ودعاوی کے ہوتے ہوئے پھر دعویٰ نبوت ورسالت سے انکار بھی کرتے ہیں ؎
دوگونہ رنج وعذاب است جان مجنوں را
بلائے صحبت لیلیٰ وفرقت لیلیٰ
انکار دعویٰ نبوت
عبارات ذیل میں جو مرزاقادیانی کی تصانیف میں ہیں دعویٰ نبوت سے صاف انکار کیاگیا ہے اور یہ کہ مدعی نبوت کافر دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
۱… ’’نبوت کا دعویٰ نہیں محدثیت کا ہے اور محدثیت کے دعویٰ سے دعویٰ نبوت نہیں ہوسکتا۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۴۲۲، خزائن ج۳ ص۳۲۰)
۲… ’’محدث ناقص طور پر نبی ہوتا ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۵۶۹، خزائن ج۳ ص۴۰۷)
(پھر ایسا گھٹیا نبی بننے سے کیا فائدہ۔ مصنف!)
۳… ’’رسول اور امتی کا مفہوم متبائن ہوتا ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۵۷۵، خزائن ج۳ ص۴۱۰)
(یعنی مرزاقادیانی کا امتی ہوکر نبی بننا اجتماع نقیضین ہے جو محال ہے۔ مصنف)
۴… ’’وہ وعدہ کرچکا ہے کہ بعد آنحضرتﷺ کوئی رسول نہیں بھیجا جائے گا۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۵۸۶، خزائن ج۳ ص۴۱۶)
(خداتعالیٰ کے دعویٰ میں تخلف نہیں ہوسکتا۔ اس لئے مرزاقادیانی ہرگز نبی نہیں ہوسکتا۔ مصنف)