مرزاقادیانی کا جنازہ
اب ہم مرزاقادیانی کے بعد ازوفات حالات پر نظر ڈالتے ہیں۔ آپ کی موت وطن سے بہت دور اس وقت ہوئی۔ جب مقابلہ کے لئے آپ کے مخالف علماء آپ کو چیلنج کر رہے تھے اور میدان میں نکلنے کی پرزور دعوت دی جارہی تھی۔ یکایک آپ ایک موذی مرض ہیضہ میں مبتلاء ہوکر رہ گرائے عالم جاودانی ہوگئے۔ شرکاء جنازہ ڈیڑھ درجن سے زائد نہ تھے۔ عوام الناس نقلیں اتار کر مرنے والے کی تضحیک کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ پھر آپ کی نعش کو کس مپرسی کی حالت میں خردجال (مالگاڑی) پر لاد کر قادیان میں پہنچایا گیا۔ افسوس! مرنے ولا بہت سی حسرتیں دل میں لے کر لحد میں جاسویا۔ ابھی تو دولہا بننا تھا۔ محمدی بیگم بیاہ لانی تھی۔ بڈھے میاں اپنے پیارے صنم کو خوش نصیب رقیب (مرزاسلطان محمد) کے ہاتھ میں چھوڑ کر دنیا سے چل بسے۔ ھیھات ثم ھیھات ؎
جدا ہوںیار سے ہم اور نہ ہو رقیب جدا
ہے اپنا اپنا مقدر جدا نصیب جدا
متصل حالات وفات کے متعلق ذیل میں چند مضامین نثر ونظم سراج الاخبار جہلم مطبوعہ ۲؍جون ویکم؍ستمبر ۱۹۰۸ء سے درج کئے جاتے ہیں۔
مرزاقادیانی کی ناگہانی موت
ہائے مرزاقادیانی مر گیا
تہلکہ مرزائیوں میں ہے پڑا
سرنگوں ہے آج مینار المسیح
قادیاں دارالحزن اب ہے بنا
دشمنوں کی موت پر ہنستے تھے کل
آج اپنے گھر میں ہے ماتم بپا
کل شیٔ ہالک الاوجہہ
دوستو! انسان کی ہستی ہے کیا
افسوس! مرزاغلام احمد قادیانی مہدویت ومسیحیت اور نبوت ورسالت کے دعویدار جو ان دنوں اپنے آرامگاہ (قادیان) سے نکل کر شہر لاہور میں اقامت پذیر تھے اور بڑے زور وشور