موسیٰ بثوبہ ورجفان حراء واحد (مسلم ج۱ ص۱۸۵، مع نووی)‘‘
یعنی اس حدیث میں دلیل ہے اس بات پر کہ اﷲتعالیٰ جمادات (بے حس چیزوں) میں (بھی) عقل وشعور کا مادہ عنایت کر دیتا ہے۔ جیسا کہ اﷲتعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ (پہاڑ کے پتھروں میں سے) بعض پتھر ایسے بھی ہیں کہ جو اﷲ کی خشیت سے (زمین پر) گر پڑتے ہیں۔ (اور جگہ اﷲتعالیٰ فرماتا ہے) کہ روئے زمین پر کوئی شے ایسی نہیں جو اﷲ کی حمد وثناء نہ بیان کرتی ہو۔ لیکن (اے انسانو! تم بوجہ عقل کا کلی مادہ نہ رکھنے کے) ان کی تسبیح وتہلیل نہیں سمجھتے اور رسول، اﷲﷺ کا (مندرجہ ذیل) فرمان بھی بعض جمادات کے عقل وشعور پر دال ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں اس پتھر کو پہچانتا ہوں کہ جو مجھ کو مکہ میں سلام کیا کرتا تھا اور ان دو درختوں کی حدیث (بھی دال ہے) جو رسول اﷲﷺ کے بلانے پر اپنی جگہ سے ہٹ کر آپ کے پاس آگئے تھے اور حدیث کھجور کے تنے والی (جس کا سہارا لے کر) رسول اﷲﷺ ممبر بننے سے پہلے وعظ فرمایا کرتے تھے۔ لیکن ممبر بننے کے بعد جب آپﷺ نے اس کا سہارا لگانا چھوڑ دیا تو وہ رونے لگا اور تسبیح پڑھنا، کھانے پینے کی چیزوں کا اور بھاگنا اس پتھر کا (جس پر موسیٰ علیہ السلام نے نہانے کے وقت کپڑے اتار کر رکھے تھے) اور (پہاڑ) حراء اور احد کا (رسول اﷲﷺ وغیرہ کے چڑھنے پر) حرکت کرنا یہ تمام نظیریں دلیل ہیں اﷲتعالیٰ کی قدرت کاملہ پر جب خداتعالیٰ نے ان جمادات (بے حس چیزوں کو) نطق عطا کیا جو ظاہر بینیوں کی نظر میں سراسر قانون قدرت کے خلاف ہے تو کیا وہ حی قیوم اپنے نبیﷺ کو خلاف معمول قلیل مدت میں آسمانوں کی سیر کرانے پر قادر نہیں؟ ’’بل وانا علیٰ ذالک من الشاہدین‘‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ معراج جیسے عظیم الشان کا وجود گزشتہ، موجودہ اور آئندہ زمانے میں ملنا محال درمحال ہے۔ پس اس ضروری تمہید کے بعد میں نفس مضمون پر کچھ خامہ فرسائی کرنی چاہتا ہوں امید کہ قارئین کرام! بغور ملاحظہ فرمائیں گے۔
اسراء اور معراج
مکہ معظمہ سے مسجد اقصیٰ تک آپﷺ کا تشریف لے جانا کلام اﷲ کی آیت ’’سبحن الذی اسریٰ بعبدہ‘‘ سے ثابت ہے اور صرف اسی قدر کے سفر کو ’’اسرائ‘‘ کہتے ہیں اور بیت المقدس سے آسمانوں پر جانے کو معراج کہتے ہیں جو حدیث سے (بھی) ثابت ہے۔ ’’ہکذا یفہم من تفسیر مدارک وغیرہ‘‘