سرزمین ہندوستان کے کہیں اور نہیں پھیل سکتی تھی۔ میں اپنے اس کام کو نہ مکہ میں چلاسکتا ہوں۔ نہ مدینہ میں، نہ روم میں، نہ شام میں، نہ ایران میں، نہ کابل میں۔ مگر اس گورنمنٹ میں جس کے اقبال کے لئے دعا کرتا ہوں۔‘‘
(اشتہار مورخہ ۲۲؍مارچ ۱۸۹۷ئ، مندرجہ تبلیغ رسالت ج۶ ص۶۹، مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۳۷۰)
’’میرا یہ دعویٰ ہے کہ تمام دنیا میں گورنمنٹ برطانیہ کی طرح کوئی دوسری ایسی گورنمنٹ نہیں جس نے زمین پر ایک امن قائم کیا ہو۔ میں سچ مچ کہتا ہوں کہ جو کچھ ہم پوری آزادی سے اس گورنمنٹ کے تحت میں اشاعت کر سکتے ہیں یہ خدمت ہم مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں بھی بیٹھ کر نہیں انجام دے سکتے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۵۶ حاشیہ، خزائن ج۳ ص۱۳۰)
اس کے بعد گورنمنٹ کی خدمت میں توجہ کی آرزو کرتا ہے اور کہتا ہے کہ: ’’جہاد کے برخلاف احقر نے کئی کتابیں لکھی ہیں۔ تاکہ رعایا کے دل میں جہاد کا خیال نہ آئے۔ بلکہ اگر وہ قادیانی مذہب پر عمل پیرا ہوں تو جہاد کو منسوخ سمجھ لیں۔‘‘
(اشتہار مورخہ ۱۸؍نومبر ۱۹۰۱ئ، مندرجہ تبلیغ رسالت ج۱۰ ص۲۸، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۴۴۳)
مسلمانوں کی تکفیر
’’مسیح موعود نے اس شخض کو بھی کافر ٹھہرایا ہے جو اسے نبی مانتا تو ہے مگر ابھی اس کو بیعت کرنے میں تأمل ہے۔‘‘ (مندرجہ تشحیذ الاذہان ج۶ نمبر۴، اپریل)
’’اس کے علاوہ کل وہ مسلمان جنہوں نے مرزا کی بیعت نہیں کی خواہ انہوں نے مسیح موعود کا نام بھی نہیں سنا کافر ہیں۔‘‘ (آئینہ صداقت ص۳۵)
’’مجھے الہام ہواجو شخص تیری پیروی نہیں کرے گا اور تیری بیعت میں داخل نہیں ہوگا۔ وہ خدا اور رسول کا نافرمانی کرنے والا جہنمی ہے۔‘‘ (معیار الاخیار مندرجہ تبلیغ رسالت ج۹ ص۲۷۵، مجموعہ اشتہارات ج۳) جو مرزاقادیانی پر ایمان نہ لائے گا۔ ’’اس کی جڑ کاٹ دی جائے گی۔‘‘
(اخبار قادیان مورخہ ۱۹؍جنوری ۱۹۰۶ئ)
’’ہمارا یہ فرض ہے کہ غیراحمدیوں کو مسلمان نہ سمجھیں اور ان کے پیچھے نماز نہ پڑھیں۔ کیونکہ وہ ہمارے نزدیک خدا کے دین اور نبی کے منکر ہیں۔‘‘ (انوار خلافت ص۹۰)
’’احمدی کو مسلمانوں کا نماز جنازہ پڑھنا جائز نہیں۔‘‘ (انوار خلافت ص۹۳)
’’اس کے علاوہ اگر کوئی ایسا شخص جس کو احمدیت کی تعلیم نہیں ملی ہے تو اس کا نماز جنازہ بھی جائز نہیں۔‘‘ (اخبار الفضل مورخہ ۱۹؍جولائی ۱۹۱۵ئ)