کریم میں مذکور ہونے کے علاوہ ایک معمولی اور مشہور لفظ ہے دو دفعہ محسنات لکھتے ہیں۔(مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۳۲۹ وص۳۳۶)۔ س اور ص کی تمیز نہ ہونا اتنے بڑے دعویدار عربیت کے حق میں سخت ذلت کا نشان ہے۔ یہ لفظ اگر ایک دفعہ لکھا ہوتا تو شاید سہو پر حمل کیا جاسکتا مگر دو دفعہ غلط لکھا اور پھر شرط یہ ٹھہراتے ہیں کہ دوسروں کی غلطیوں کو سہو اور نسیان پر حمل نہیں کیاجائے گا۔
اخیر میں میرا التماس ہے کہ میں آپ کے ساتھ ہر ایک مناسب شرط پر عربی نظم ونثر لکھنے کو تیار ہوں۔ تاریخ کا تقرر آپ ہی کر دیجئے اور مجھے اطلاع کر دیجئے کہ میں آپ کے سامنے اپنے آپ کو حاضر کروں۔ مگر یاد رہے کہ کسی طرح بھی عربی نویسی کو مجددیت یا نبوت کا معیار تسلیم نہیں کیاگیا۔ ’’والسلام علی من اتبع الہدیٰ‘‘
راقم محمد حسن حنفی! بھین ضلع جہلم تحصیل چکوال۔ مدرس دارالعلوم نعمانیہ لاہور ۵؍اگست ۱۹۰۰ئ‘‘
علاوہ ازیں فیضی صاحب مرحوم سے مرزاقادیانی کی ناراضگی کی یہ بھی وجہ تھی کہ جب مرزاقادیانی کے چیلنج تفسیر نویسی کے مطابق حضرت پیر صاحب گولڑوی مدظلہ العالی بمعہ بہت سے جلیل القدر علماء وفضلاء کے لاہور تشریف لے گئے تھے اور باوجود دعوت پر دعوت ہونے کے مرزاقادیانی کو اپنے بیت الامن کی چار دیواری سے باہر نکلنے کی جرأت نہ ہوئی تھی۔ بالآخر شاہی مسجد میں علماء وفضلاء کا جلسہ ہوا۔ جس میں مسلمانان لاہور بھی کثرت سے شامل تھے۔ اس جلسہ میں علامہ فیضی مرحوم نے مناسب حال حسب ذیل زبردست تقریر کی تھی۔ جو روئیداد جلسہ میں چھپی ہوئی ہے۔
مولانا ابوالفیض مولوی محمد حسن فیضی مدرس دارالعلوم نعمانیہ لاہور کی تقریر
حضرات ناظرین! مرزاغلام احمد قادیانی نے ایک مطبوعہ چٹھی بصورت اشتہار مطبوعہ ۲۰؍جولائی ۱۹۰۰ء مشتہر ۲۰؍جولائی ۱۹۰۰ء بذریعہ رجسٹری مولانا المعظم ومطاعنا المکرم عالی جناب حضرت خواجہ سید مہر علی شاہ صاحب چشتی سجادہ نشین گولڑوہ شریف ضلع راولپنڈی کے نام نامی پر بشمولیت دیگر علماء کرام ومشائخ عظام ایدہم اﷲتعالیٰ وکثرہم کے بھیجی جس کے پہلے دو صفحوں پر مرزاقادیانی نے اپنی عادت کے مطابق اپنے مرسل، مامور من اﷲ اور پھر مجدد مہدی مسیح ہونے کے ثبوت میں بخیال مخبوط خود دلائل پیش کئے اور عالی جناب حضرت پیر صاحب موصوف اور دیگر علماء وفضلاء اسلام کو لکھا کہ میرے دعاوی کی تردید میں کوئی دلیل اگر آپ کے پاس ہے تو کیوں پیش نہیں کرتے ہو۔ اس وقت مفاسد بڑھ گئے ہیں۔ اس لئے مجھے مصلح کے عہدہ میں بھیجا گیا ہے۔ آخیر پر آپ تحریر فرماتے ہیں کہ اگر پیر صاحب ضد سے باز نہیں آتے یعنی نہ وہ میرے