۷… ’’جب ایک بات میں کوئی جھوٹا ثابت ہو جائے تو پھر دوسری باتوں میں بھی اس پر اعتبار نہیں رہتا۔‘‘ (چشمہ معرفت ص۲۲۲، خزائن ج۲۳ ص۲۳۱)
مرزاقادیانی کے جھوٹ مشتے نمونہ ازخروارے
۱… ’’ہم مکہ میں مریں گے یا مدینہ میں۔‘‘ (تذکرہ ص۵۹۱، طبع سوم)
۲… ’’خداتعالیٰ کی طرف سے مجھے الہام ہوا ہے کہ تمہارا یہ کام اس شرط پر ہوسکتا ہے کہ تم اپنی بڑی لڑکی (محمدی بیگم) کا نکاح مجھ سے کر دو۔ میں اس پیش گوئی کو اپنے صدق وکذب کے لئے معیار قرار دیتاہوں اور یہ خدا سے خبر پانے کے بعد کہہ رہا ہوں۔
(انجام آتھم ص۲۲۳، خزائن ج۱۱ص ایضاً)
۳… ’’چند ماہ میں فریق مخالف پادری آتھم ہاویہ میں بسزائے موت نہ پڑے تو میں ہر ایک سزا کے اٹھانے کے لئے تیار ہوں۔ مجھ کو ذلیل کیا جاوے۔ میرے گلے میں رسہ ڈال دیا جاوے۔ مجھے روسیاہ (کالا منہ) کیا جاوے۔ مجھ کو پھانسی دیا جاوے۔ ہر ایک بات کے لئے تیار ہوں۔‘‘ (جنگ مقدس ص۱۸۹، خزائن ج۶ ص۲۹۳)
نتیجہ
’’مرزاغلام احمد قادیانی احمدیہ بلڈنگ برانڈرتھ روڈ لاہور میں ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء مرے اور قادیان میںدفن ہوئے۔‘‘ (سیرت المہدی حصہ اوّل ص۹،۱۰)
الف… ’’محمدی بیگم کا نکاح مرزاسلطان بیگ پٹی والے سے ہوا اور مرزاغلام احمد ناکام ونامراد رہے۔‘‘
ب… ’’محمدی بیگم مرزاسلطان احمد مسلمان ہی کے گھر آباد رہی اور اٹھاون سال بعد ۱۹؍نومبر ۱۹۶۶ء کو فوت ہوئی۔‘‘ (ہفتہ وار الاعتصام مورخہ ۲۵؍نومبر ۱۹۶۶ئ)
’’میںچھوٹا بچہ تھا… مگر مجھے وہ نظارہ خوب دیا ہے کہ جب آتھم کی پیش گوئی کا آخری دن آیا تو کتنے کرب واضطراب سے دعائیں کی گئیں۔ میں نے تو محرم کا ماتم بھی کبھی اتنا سخت نہیں دیکھا… ہر ایک کی زبان پر یہ دعا جاری تھی کہ یا اﷲ آتھم مر جائے یا اﷲ آتھم مر جائے۔ مگر اس کہرام اور آہ وزاری کے نتیجے میں آتھم تو نہ مرا۔‘‘ (الفضل قادیان مورخہ ۲۰؍جولائی ۱۹۴۰ئ)
نوٹ… یہاں یہ بتا دینا بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ خود مرزاغلام احمد مصاحبین مرزاغلام احمد اور اہل وعیال مرزاغلام احمد نے نہ صرف آتھم کی موت کے لئے دعائیں کیں اور بین ڈالے۔ بلکہ ان سب نے ٹونے ٹوٹکے (جادو) بھی کئے۔