۲… ’’جو شخص ایسی بات کہے جس کی شرع میں کوئی اصل نہ ہو وہ شخص ملہم یا مجتہد ہی کیوں نہ ہو سمجھ لینا چاہئے کہ شیطان اس سے کھیلتا ہے۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام ص۲۱، خزائن ج۵ ص۲۱)
۳… ’’سچے الہام بعض دفعہ کنجروں ڈوموں اور رنڈیوں کو بھی ہو جاتے ہیں۔ مگر سچا وہی ہے جس کے سب الہام سچے ہوں۔ ‘‘ (توضیح مرام ص۸۴،۸۵، خزائن ج۳ ص۹۵ملخص) تو چونکہ مرزاقادیانی کے اکثر الہامات مثلاً محمدی بیگم کے نکاح کا الہام مولوی ثناء اﷲ اور ڈاکٹر عبدالحکیم کا مرزاقادیانی کی زندگی میں مر جانے کا الہام، ثمانین حولاً کا الہام، شوخ ولنگ لڑکا کا الہام، خواتین مبارکہ کا الہام۔ وغیرہ وغیرہ! جھوٹے ثابت ہوچکے ہیں۔ اس لئے آپ کے بتائے ہوئے معیار کے رو سے آپ سچے ملہم نہیں ہیں۔
یہ بات کہ عیسیٰ علیہ السلام اتنی مدت دراز زندہ کس طرح رہ سکتے ہیں۔ قدرت ایزدی پر عدم ایمان کی دلیل ہے۔ دنیا میں بڑی بڑی عمر والے انسان گزر چکے ہیں۔ چنانچہ ابوالبشر آدم علیہ السلام کی عمر دوہزار سال تھی۔ ایک ہزار سال جنت میں اور ایک ہزارسال زمین میں رہے تو پھر مسیح جو بشہادت قرآن مثیل مسیح ہیں۔ ان کی عمر پر اعتراض کیوں ہے۔ نوح علیہ السلام کی عمر بھی تو آخر ۵۰کم ایک ہزار سال تھی۔ ملائکہ کی عمر کتنی لمبی ہے۔ جبرائیل علیہ السلام ہر ایک نبی ورسول کے پاس حتیٰ کہ نبی آخر الزمان تک منجانب اﷲ وحی لاتے رہے۔ ملک الموت قابض الارواح کی درازی عمر میں کس کو کلام ہے۔ پھر مسیح علیہ السلام جو بشری اور ملکوتی صفات کے جامع تھے ان کی درازی عمر پر اعتراض معترض کی جہالت کی دلیل ہے۔
ایک لطیف فلسفیانہ بحث
مرزاقادیانی فرماتے ہیں کہ اہل علم کبھی تسلیم نہیں کرتے کہ کوئی خاکی جسم آسمان پر جائے اور لوٹ آئے۔ یہ سنت اﷲ کے بھی خلاف ہے۔ پھر عیسیٰ علیہ السلام کا بجسد عنصری آسمان پر جانا بالکل محال ہے۔
جواب… اہل علم سے مراد اگر علم جدید کے عالم اہل یونان مراد ہیں تو پھر آپ ان کے علوم کی تصدیق کرتے ہوئے قرآن کی پیروی چھوڑدیں۔ کیونکہ وہ افلاک میں فرق والتیام کے بھی قائل نہیں ہیں۔ حالانکہ قرآن کے رو سے قرب قیامت میں آسمان کا پھٹ جانا ثابت ہے۔ ’’فاذانشقت السماء فکانت وردۃ کالدہان‘‘
اور اگر اہل علم سے مراد اہل یورپ ہیں اور آپ مغربی علوم کو وحی من السماء سمجھے ہوں تو پھر فرمائیے علم مغرب کا کون سا اصول رفع جسم کا مانع ہے۔