کی نسبت طیراً ابابیل کا خیال کرنا تو نہایت بے ادبی ہے۔ البتہ پہلی شق کی کوئی وجہ نکل سکتی ہے تو براہ مہربانی اس الہام کی پوری تفسیر کر دیجئے گا۔ مرزائی صاحبان مانیں یا نہ مانیں۔ دنیا میں تو اب مولانا مولوی محمد کرم الدین صاحب کی فتح کا ڈنکا بج گیا اور مرزاقادیانی کا وہ طلسم اعجاز دعویٰ (الہام) ٹوٹ گیا۔ ’’الحق یعلو ولایعلے‘‘ اب تو مرزائی صاحبان کو مرزاقادیانی سے صاف کہہ دینا چاہئے ؎
بس ہو چکی نماز مصلّے اٹھائیے
افسوس ہے کہ مرزاقادیانی کے جری سپاہی خواجہ کمال الدین صاحب وکیل کی یکسالہ محنت اکارت گئی اور برخلاف ان کے فاضل وکلاء جناب سیدمیر احمد شاہ صاحب پلیڈر بٹالہ اور شیخ نبی بخش صاحب پلیڈر گورداسپور بابو مولامل صاحب بی۔اے وکیل گورداسپور نے میدان جیت لیا۔ ہم ان وکلاء صاحبان کو تہہ دل سے مبارک باد دیتے ہیں اور ان کی محنت کا اعتراف کرتے ہیں اور پھر صدہا مبارک باد مولانا صاحب مولوی محمد کرم الدین صاحب کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک زبردست فتح حاصل کی۔‘‘ (راقم ایک گورداسپوری)
اس مقدمہ میں بہت بڑی زک مرزائیوں کو ایک یہ ملی تھی کہ مقدمہ صرف اس غرض سے چھیڑا گیا تھا کہ حضرت پیر حضرت گولڑوی مدظلہ (جن کے باعث مرزاقادیانی لاہور کی بحث سے انکار کے باعث سخت شرمندگی اٹھا چکے تھے اور پھر سیف چشتیائی کے باعث مرزاقادیانی کی علمی پردہ دری ہوچکی تھی) کو عدالت میں بلوایا جائے اور جرح وغیرہ سے ان کو بے وجہ تکلیف دی جائے۔ لیکن باوجود مرزائیوں کی بے انتہاء کوششوں اور درخواست پر درخواستیں گزارنے کے پیر صاحب عدالت میں نہ طلب ہوسکے۔ جو پیرصاحب کی کرامت کا بہت بڑا نشان اور مرزا کی ناکامیابی کا بھاری نمونہ قیامت تک یادگار مقدمہ رہے گا۔
مرزائیوں کا دوسرا مقدمہ فوجداری
دوسرا مقدمہ بھی مرزاقادیانی کے اسی مخلص جان نثار نے ۲۹؍جون ۱۹۰۳ء کو بذریعہ مسٹر اوگار من بیرسٹربار ایٹ لاء لاہور وخواجہ کمال الدین وکیل، عدالت لالہ چندولال صاحب مجسٹریٹ میں دائر کیا اور اس مقدمہ کی بناء اس سے شروع ہوئی کہ حکیم فضل الدین کا بیان بمقدمہ ۴۱۷تعزایرات ہند ہورہا تھا۔ جرح کے وقت اس کے ایک بیان کی تردید کے لئے ہم نے کتاب نزول المسیح کے چند اوراق پیش کر دئیے۔ چونکہ اس سے اس کے پہلے بیان کی تکذیب ہوتی تھی۔ اس لئے اس نے اس وقت اس کتاب کی ملکیت سے صاف انکار کیا۔ چنانچہ لکھا یا کہ کتاب نزول