اس رسالہ کے ص۵۹،۶۰ میں بعض آریوں کے خطاب میں حلال زادہ اور ولد الز۱؎نا کنجر، مادری خصلت وغیرہ الفاظ استعمال کئے ہیں اور ایک ہندو کو صرف یہ بات کہنے پر کہ مرزاقادیانی قرضدار ہے۔ لکھتے ہیں کہ جو شخص۲؎ اپنی دختر کی نسبت ناطہ کسی سے کرنا چاہتے ہیں وہ اس کی جانداد وعالی حیثیت کو دیکھا کرتے ہیں۔
کیا ایسے اخلاق کا شخص نبی رسول یا مجدد ملہم ومحدث یا ولی ہوسکتا ہے۔ یا ایسے شخص کو ایک شریف انسان بھی کہا جاسکتا ہے۔ شرفاء کا قاعدہ ہے کہ گالیاں سن کر ایسے گزر جاتے ہیں گویا ان سے کسی نے خطاب ہی نہیں کیا۔ اﷲتعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ’’والذین ہم عن اللغو معرضون‘‘ اور ’’اذا خاطبہم الجاہلون قالوا سلاماً‘‘ حضرت علی المرتضیٰ کا قول ہے ؎
’’ولقد مررت علیٰ اللئیم یسبنی
فمضیت ثم قلت لا یعیننی‘‘
میں ایک سفلہ کے پاس سے گزرا جو مجھے برا بھلا کہہ رہا تھا۔ میں وہاں سے گزر گیا یہ کہہ کر کہ اس کا خطاب کسی اور شخص سے ہے۔
نبی، رسول، ولی، مؤمن بلکہ شریف انسان کبھی جھوٹ نہیں بولا کرتے۔ مرزاقادیانی کے جھوٹوں کی فہرست لکھنے لگیں تو ایک کتاب تیار ہو جائے۔ ذیل میں چند ایک صریح غلط بیانیاں آپ کی لکھی جاتی ہیں۔
مرزا قادیانی کی غلط بیانیاں
۱… تعداد مریدان کی نسبت غلط بیانی: ۱۹۰۰ء میں منشی تاج الدین تحصیلدار کے سامنے بمقدمہ انکم ٹیکس آپ نے تعداد مریدان کل ۳۱۸ لکھائی۔ تحصیلدار نے اپنی رپورٹ میں یہی تعداد لکھی جس کی نقل (ضرورۃ الامام ص۴۳، خزائن ج۱۳ ص۵۱۴) میں درج ہے۔
۱؎ مرزائیو! مرشد کی تہذیب کی داد دینا اور ان کا یہ شعر بھی پڑھنا ؎
گالیاں سن کے دعا دیتا ہوں ان لوگوں کو
رحم ہے جوش میں اور غیظ گھٹایا ہم نے
(درثمین ص۱۴،اردو)
رحم کے جوش میں اس حالت کو پہنچ گئے۔ غیظ میں آجاتے تو زمین وآسمان کو زیروزبر کردیتے۔
۲؎ ناخن نہ دے خدا تجھے اے پنجہ جنوں… ورنہ تو دے گا عقل کے بخیئے ادھیڑ تو۔