منصف صاحب کے سامنے رکھی کہ آپ اس کا ترجمہ کریں۔ منصف صاحب اس کا ترجمہ کرنے پر تیار ہوگئے۔ لیکن عدالت نے یہ سوال فضول سمجھ کر رد کر دیا کہ اس کا ترجمہ کرانے کی گواہ سے کچھ ضرورت نہیں۔ اس وقت مستغیث نے ایک عربی نظم ہاتھ میں لے کر مرزاقادیانی سے درخواست کی کہ اگر معیار لیاقت عربی تحریروں کے ترجمہ کرنے پر ہے تو آپ جو عربیت میں فاضل وقت ہونے کے مدعی ہیں اس نظم کا ترجمہ کر دیں۔ میں آپ کا اس وقت مرید بنتا ہوں اور مقدمات چھوڑتا ہوں۔ لیکن جیسا کہ تمہید میں ذکر ہوچکا ہے۔ مرزاقادیانی نے سر نیچے کر دیا اور زبان تک نہ کھولی کہ لاؤ ہم ترجمہ کرتے ہیں۔
مولوی ثناء اﷲ صاحب کی شہادت
۱۷؍دسمبر۱۹۰۳ء کو مرزاقادیانی کے مشہور مقابل (فاتح قادیان) مولوی ابوالوفا ثناء اﷲ صاحب مولوی فاضل امرتسری کی شہادت پر جرح ہونی تھی اور اس تاریخ کو بہت سے مرزائی دور دور سے آئے ہوئے تھے اور علاوہ ان کے اور بھی بہت سے لوگ جمع ہوئے تھے۔ کیونکہ مرزائیوں میں یہ مشہور ہورہا تھا کہ دیکھو تو مولوی ثناء اﷲ صاحب اب ہمارے قابو آیا ہے۔ جرح سے اس کی ہوش مار دیں گے اور تمام مسائل متنازعہ وفات مسیح وغیرہ سب اسی شہادت میں صاف کرا لئے جائیں گے۔ مولوی صاحب پر جرح شروع ہوئی اور بہت سی جماعت مرزائی مولویوں کی امداد کے لئے پاس بٹھائی گئی۔ جن میں مولوی محمد احسن صاحب امروہی بھی تھے۔ متفقہ امداد سے سوالات مرتب ہوتے اور فاضل گواہ کے پیش کئے جاتے۔ لیکن جواب سننے پر مرزائیوں کی غشی آجاتی تھی۔ مولوی فاضل گواہ نے بھی مرزائی جماعت کی کچھ پیش نہ جانے دی۔ ۱۷سے شروع ہوکر ۱۹تک جرح ہوتی رہی۔ لیکن مرزائیوں کے کچھ ہاتھ نہ آیا۔ آخر غیرمتعلق سوالات کا سلسلہ چھیڑنا چاہا تو عدالت نے فضول سمجھ کر جرح سے روک دیا اور حیات وفات مسیح کی بحث وغیرہ کا منصوبہ دل کا دل ہی میں رہ گیا۔ الغرض شہادت استغاثہ ختم ہوچکی اور آئندہ پیشی کی تاریخ ۱۳؍جنوری ۱۹۰۴ء بغرض سماعت بحث فریقین مقرر ہوئی۔
بحث استغاثہ
۱۳؍جنوری کو بحث فریقین سننے کے لئے کمرۂ عدالت میں جم غفیر شرفاء شہر گورداسپور اور اہلکاران وغیرہ مردمان کا جمع ہوگیا اور پہلے استغاثہ کی طرف سے بحث شروع ہوئی۔ ۱۱؍بجے سے بحث منجانب استغاثہ شروع ہوگئی۔ چنانچہ پہلے بابو مولا مل صاحب وکیل نے قانونی بحث نہایت قابلیت سے کی۔ بعد ازاں خود مولوی محمد کرم الدین صاحب مستغیث نے واقعات کی بحث