دیکھئے! کیسی صاف عبارتوں کے ہوتے ہوئے لاہوری جماعت دنیا کی آنکھوں میں خاک جھوکنا چاہتی ہے۔ یہ مضامین مرزاقادیانی خود پڑھتے ہیں اور حکیم نورالدین پڑھتے ہیں۔ مسٹر محمد علی پڑھتے ہیں۔ محمد احسن امروہی اور خواجہ کمال الدین وغیرہ سب کی نظروں سے گذرتے ہیں۔ لیکن شیر علی کو کوئی نہیں ڈانٹتا کہ تو مرزاقادیانی پر نبوت کے دعوے کا اتہام لگاتا ہے۔ نہ مرزاقادیانی اپنے مرید شیر علی کو کہتے ہیں کہ بھلے مانس مجھے کون سا دعویٰ ہے۔ میرے پر کیوں اتہام لگاتا ہے۔ غرضیکہ یہ اسلام شکن مضامین ان کی اخباروں اور رسالوں میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ تمام جماعت مرزائیہ کو معہ مرزاقادیانی سانپ سونگھ جاتا ہے۔ ایک بھی تردید نہیں کرتا معلوم ہوتا ہے کہ سب کی ملی بھگت تھی۔ سب ان کو نبی سمجھتے تھے۔ اب جو انکار ہے وہ کسی مصلحت کے ماتحت ہے۔
حکیم نوردین صاحب بھی مرزاغلام احمد قادیانی کو نبی سمجھتے تھے
مسٹر محمد علی صاحب امیر جماعت لاہور کے متعلق تو ہم پیچھے ثابت کر آئے ہیں کہ وہ ایک عرصہ دراز تک مرزاقادیانی کو پیغمبر آخر زمان ونبی آخرزمان وغیرہ تسلیم کرتے رہے ہیں اور اب بھی پوشیدہ طور سے نبی مانتے ہیں۔ لیکن اب حکیم نورالدین صاحب کے متعلق یہ دکھلانا چاہتا ہوں کہ وہ مرزاقادیانی کو کیا سمجھتے تھے۔ کیونکہ وہ مرزاقادیانی کی جماعت کے ایک بڑے رکن خیال کئے جاتے ہیں۔ لاہوری اور قادیانی دونوں جماعتیں ان کو مانتی ہیں۔ ایک واقعہ حکیم صاحب کے متعلق مرزاقادیانی کی زندگی کا آپ حضرات کو دلچسپی کے لئے پیش کرتا ہوں۔ سنئے! ’’حضرت اقدس نے اس قدر تقریر فرمائی تھی کہ مولانا نورالدین صاحب حکیم الامۃ جوش اور صدق کے نشہ سے سرشار ہوکر اٹھے اور کہا کہ میں اس وقت حاضر ہوا ہوں کہ حضرت عمرؓ نے بھی رسول اﷲﷺ کے حضور رضیت باﷲ رباً وبمحمد نبینا کہہ کر اقرار کیا تھا۔ اب میں اس وقت صادق امام مسیح موعود اور مہدی معہود کے حضور وہی اقر کرتا ہوں کہ مجھے کبھی ذرا بھی شک نہیں گذرا اور یہ خداتعالیٰ کا فضل ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ بہت سے اسباب ایسے ہیں جن کا ہمیں علم نہیں اور میں نے ہمیشہ اس کو آداب نبوت کے خلاف سمجھا ہے کہ کبھی کوئی سوال اس قسم کا کروں۔ میں حضور اقرار کرتا ہوں۔ ’’رضینا باﷲ ربا وبک مسیحاً ومہدیاً‘‘ اس تقریر کے ساتھ ہی حضرت اقدس نے بھی تقریر ختم کر دی۔‘‘ (الحکم نمبر۴۴ ج۶ مورخہ ۱۰؍دسمبر ۱۹۰۲ئ)
اس عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ حکیم نورالدین کسی قسم کا سوال کرنا بھی مرزاقادیانی سے