چند مصنّفین اسلام
۱… ابوعلی حسین بن عبداﷲ بن سینا بڑے پایہ کا فاضل اور مصنف تھا۔ اس کا کمال دیکھ کر شمس الدولہ والئی گورگاں نے اس کو عہدہ وزارت پر سرفراز فرمایا۔ وزارت کے ایام میں ۱۲۰ مریضوں کا ہاتھ دیکھ کر کھانا کھایا کرتا تھا۔ علم طب میں ۲۶کتابیں، فقہ اور توحید میں ۱۲۰ حاصل ومحصول ۲۰ جلد، البر والاثم، ۸جلد، اسی کی تصانیف سے ہیں۔ لغت میں چار، منطق میں ۶،طبعی وریاضی میں ۱۵ اور سیاست وموسیقی میں سات تصانیف ہیں۔
۲… طبری مشہور مصنف ہے۔ اصل نام ابوجعفر محمد بن جریر بن یزید بن کثیر بن غالب تھا۔ شہرابل واقعہ طبرستان میں ۲۲۵ھ میں پیدا ہوا۔ فن تاریخ میں کامل مہارت تھی۔ علامہ حمودی نے معجم الادباء میں لکھا ہے کہ طبری نے چالیس سال تک تصنیف وتالیف کا سلسلہ قائم رکھا۔ ہر روز ۴۰ ورق لکھا کرتا تھا اور نظرثانی نہ کرتا تھا۔ اس نے کل ۵لاکھ ۶۶ہزار ۴سو ورق لکھے۔ ایک روز اس نے اپنے دوستوں سے پوچھا تم اس بات سے خوش ہو کہ میں نے ایک تاریخ لکھی ہے جس میں آدم سے آج تک کے واقعات ہیں۔ اس کی ضخامت ۳۱ہزار ورق ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے مطالعہ کے لئے بڑی عمر چاہئے۔ طبری نے کہا افسوس تمہاری ہمتیں پست ہوگئیں۔ پھر اس کو مختصر کیا۔ جامع البیان فی تاویل القرآن ۲۵ جلد اس کی تصنیف ہے۔ جواب بھی کتب خانہ خدیویہ میں قلمی موجود ہے۔ تاریخ الملوک والامم ۱۱جلد لندن میں چھاپی گئی ہے۔ مؤرخ موصوف شوال ۳۱۰ھ میں فوت ہوا اور بعدہ اپنے گھر میں دفن ہوا۔
مرزائی صاحبان بتائیں کہ آپ کے مرزا کی ان مصنّفین کے مقابلہ میں کیا حقیقت ہے۔ انہوں نے کون سی تفسیر قرآن یا فن فقہ اصول اور حدیث میں کوئی کتاب تصنیف کی؟ آپ کی تمام کتابوں میں یا دوسرے لوگوں کو گالیاں یا اپنی خود ستائی درج ہے کہ میں مسیح موعود میں مہدی مسعود، میں نبی ورسول، میں رام چندر، میں کرشن، میں شری شکلنگ بھگوان کا اوتار، میں ایسا، میں ویسا ہوں۔
مرزاقادیانی کی فصاحت وبلاغت
مرزاقادیانی کی فصاحت وبلاغت کا یہ حال ہے کہ اردو تک بھی صحیح نہ تھی۔ چنانچہ (حقیقت الوحی) میں لکھا ہے کہ کسی من چلے مرید نے آپ کی بودی اردو دیکھ کر اعتراض کر دیا کہ حضور عالی اردو میں پنجابی الفاظ گھسیڑ دیا کرتے ہیں تو فرمانے لگے کیوں نہ ہو۔ آخر پنجابی ہوں۔