بیرسٹربار ایٹ لاء بھی آگئے تھے اور ادھر سے مستغیث اور ان کے وکیل بابو مولا مل صاحب بھی پہنچ گئے تھے اور علیوال اور ان کے ارد گرد کے بے تعداد مسلمان یہاں مولوی کرم الدین صاحب کے استقبال کے واسطے پہلے ہی منتظر کھڑے تھے اور مولوی اﷲ دتہ صاحب ومولوی محمد علی صاحب سوہلی بھی پہلے ہی یہاں پہنچ چکے تھے۔ مولوی صاحب اور ان کی جماعت کے واسطے فرش وفروش کے علاوہ بہت سی کرسیاں بھی مہیا کر رکھی تھیں۔ چنانچہ مولوی صاحب اور انکے وکیل صاحب معہ اپنے خاص دوستوں کے کرسیوں پر اور دیگر مسلمان فرش پر بیٹھ گئے لیکن افسوس کہ مرزائی جماعت کی طرف سے یہاں کوئی انتظام فرش وکرسیوں وغیرہ کا نہ کیاگیا تھا۔ جس کی وجہ سے ان کی جماعت کے معززوں کو بڑی تکلیف ہوئی۔ صرف ایک کرسی بھی صاحب بہادر کے لئے بڑی مشکل سے دستیاب ہوئی۔ دوسرے جنٹلمینوں نے کھڑے کھڑے ادھر ادھر ٹہل کر وقت گزارا۔ قریب گیارہ بجے کے مقدمہ بلایا گیا اور صاحب بہادر نے ایک گھنٹہ تک وکلائے فریقین کی تقریریں سن لیں۔ ملزمان کی طرف سے مسٹر اورٹیل صاحب نے بڑی بحث کی کہ رائے چندولال صاحب کی عدالت سے مقدمہ ضرور انتقال ہونا چاہئے۔ دوسری طرف سے بابو مولامل وکیل صاحب وکیل مستغیث نے بڑی معقولیت سے اس کی تردید کی اور ثابت کیا کہ انتقال مقدمہ کی کوئی وجہ نہیں ہے اور انتقال مقدمہ کی صورت میں مستغیث کو سخت تکلیف ہوگی جو کہ دور دراز ضلع سے آتا ہے اور ملزمان اس کو تکلیف میں ڈالنے کے واسطے ہی انتقال مقدمات کی درخواستیں کر رہے ہیں۔ بعد سماعت بحث ہر دو فریق کے صاحب بہادر نے مرزائیوں کی درخواست کو نامنظور کیا اور حکم دیا کہ اسی عدالت میں مقدمات سماعت ہوں گے۔ اس وقت مرزائیوں کی حالت دیکھنے کے قابل تھی۔ ندامت اور حسرت کے آثار چہروں سے نمودار ہو رہے تھے۔ ذیل میں ہم میجر سی ایم ڈالس صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر کے فیصلہ کاترجمہ درج کرتے ہیں۔
ترجمہ چٹھا انگریزی صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر ضلع گورداسپور
بحث وکلائے فریقین سنی گئی۔ کرم الدین کا وکیل انتقال کی بابت اس وجہ پر اعتراض کرتا ہے کہ یہ مقدمات ایک مجسٹریٹ نے ایک حد تک سماعت کئے ہیں۔ میرا مؤکل جو جہلم سے آتا ہے اس کو دوبارہ گواہوں کے بلانے سے بلاوجہ سخت حرج اور تکلیف ہوگی۔ یہ درست ہے۔
کیا کوئی وجوہات ہیں جن سے فرض کیا جائے کہ مجسٹریٹ نے پہلے ہی سے اس مقدمہ کا فیصلہ سوچ لیا ہوا ہے۔ میں ایسا خیال نہیں کرتا اس نے ان مقدمات کو بہت کچھ سن لیا ہے۔ لیکن ہنوزان مقدمات میں فرد نہیں لگائی۔ تینوں مقدمے ایک ہی حد تک پہنچے ہوئے ہیں۔ یعنی استغاثہ