الاسراء والمعراج (فتح الباری ص۴۰۳)‘‘ یعنی امام بخاری ؒ کا اس حدیث کو معراج کے باب میں لانے سے یہ مقصد معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاریؒ کے نزدیک الاسراء اور معراج ایک ہی رات میں معاً واقع ہوئی ہیں۔
حافظ ابن حجرؒ کے کلام سے واضح ہو گیا کہ معراج اور اسراء کا وقوع معاً ایک ہی رات میں ہوا۔ آیت مذکورۃ الصدر میں جو قادر ذوالجلال نے صرف اسراء کا ذکر کیا ہے اور معراج کا نہیں تو اس ذکر نہ کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ معراج کا وقوع اسراء کے ساتھ ہوا ہی نہیں۔ کیونکہ عدم ذکر عدم شئی کو مستلزم نہیں، اردو زبان میں اس کی مثال یوں سمجھئے کہ مثلاً اگر آپ بمبئی سے آگے کسی اور شہر تشریف لے جائیں اور آپ کے وہاں سے واپس آنے پر کوئی آپ کے دوست دریافت کریں کہ جناب کہاں تشریف لے گئے تھے، آپ ان کو جواب دیتے ہیں۔ اجی! یہیں بمبئی تک گیا تھا۔ دیکھئے! حالانکہ آپ بمبئی سے آگے تک تشریف لے گئے تھے۔ لیکن بیان کرنے کے وقت آپ نے بمبئی کے آگے کے سفر کو حذف کر دیا۔ جس طرح آپ کا اگلے سفر کو ذکر نہ کرنا اس بات کی دلیل نہیں ہوسکتا کہ آپ وہاں تک گئے ہی نہیں۔ اسی طرح رب العزت کا معراج کو ذکر نہ کرنا اس کے عدم وقوع پر دلالت نہیں کر سکتا۔
پس جب معراج اور اسراء کا معاً ایک ہی رات میں واقع ہونا ثابت ہوچکا تو اب لفظ بعبدہ سے استدلال کرنا بھی ٹھیک ہوا۔ فالحمدﷲ علیٰ ذالک!
معراج جسمانی کا ثبوت احادیث سے
معراج جسمانی کے اثبات میں بکثرت احادیث وارد ہوئی ہیں۔ اگر ان تمام جزئیات کا استقصاء کیا جائے جو موضوع رسالہ پر دال ہیں تو مضمون میں اتنی طوالت آجائے گی کہ ناظرین کو مضمون پورا کرنا دشوار ہو جائے گا۔ لہٰذا چند احادیث پر ہی اکتفا کرتا ہوا نفس مضمون کو اقوال علماء اور عقلی دلائل سے بالکل صاف کئے دیتا ہوں۔
۱… ’’واخرج ابن ابی شیبۃ واحمد والنسائی والبزار والطبرانی وابن مردویہ وابونعیم فی الدلائل والفیاء فی المختارۃ وابن عساکر بسند صحیح عن ابن عباسؓ قال قال رسول اﷲﷺ لما کان لیلۃ اسری بی فاصبحت فے مکۃ قطعت وعرفت من الناس مکذبے فقعدت معتزلا حزینا فمر