پھر اب اس حلفی بیان کے خلاف مرزاقادیانی کا یہ کہنا کہ مولوی محمد حسن میری پیش گوئی کے مطابق فوت ہوا ہے کس قدر ڈھٹائی ہے؟
مرزائیوں کی مقدمہ بازی
اب ہم اس قدر تمہید لکھنے کے بعد اپنے اصل مقصود کی طرف آتے ہیں۔ سو واضح ہو کہ مقدمہ بازی کا سلسلہ پہلے مرزاقادیانی کے حکم سے مرزائیوں نے چھیڑا۔ اس کا نام اخبارات واشتہارات میں جہاد ۱؎ رکھا۔ گویا یہ ان کا قانونی جہاد تھا اور اس جہاد کے بہانہ سے مریدوں کو خوب لوٹا۔ چنانچہ آخری روز فیصلہ کے دن خواجہ کمال الدین صاحب بی۔اے وکیل مرزاقادیانی نے سرعدالت تسلیم کیا کہ مقدمہ بازی میں ہمارے تیس ہزار روپے صرف ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ مرزاقادیانی نے جیسا کہ ان کے بیانات سے ظاہر ہوگا اپنی گرۂ سے ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کیا نہ ہی فریق مقدمات فضل الدین بھیروی یا شیخ یعقوب علی تراب ایڈیٹر الحکم کی یہ حیثیت تھی کہ تیس ہزار روپیہ کے مصارف پورے کرتے یہ سارا بوجھ مرزاقادیانی کے خوش اعتقاد مریدوں نے برداشت کیا اور پبلک کا ناحق روپیہ اس فضول کام (مقدمہ بازی) میں پانی کی طرح بہایا گیا۔
سو یہ بات کہ یہ ناگوار سلسلہ مقدمہ بازی مابین فریقین کیوں شروع ہوا۔ سو جہاں تک ہم غور کرتے ہیں درحقیقت یہ سلسلہ حسب منشاء قدرت ایزدی جاری ہوا اور اثنائے مقدمات میں قدرت کے عجیب عجیب کرشمے نمودار ہوتے رہے۔ ہرچند اس سلسلہ کو چھیڑنے والے مرزاقادیانی بہادر اور ان کے اراکین دولت تھے اور انہوں نے اس غرض سے یہ سلسلہ چھیڑا تھا کہ دنیا پر اپنا رعب قائم کریں گے اور اپنے جلیس قانونی مشیروں (وکلائ) کی قانونی قابلیت اور افراط زر اور گرم جوش جماعت کی متفقہ طاقت سے چشم زون میں مخالف فریق کو نیست ونابود کر کے لمن الملک کا نقارہ دنیا میں بجا دیں گے۔ لیکن ان کو کیا علم تھا کہ ؎
مادر چہ خیالیم وفلک درچہ خیال
اس چھیڑ خانی کا نتیجہ ان کے حق میں آخر کیا نکلے گا۔ اگر ان کو یہ علم ہوتا کہ یہ مقدمہ بازی ہمارے لئے وبال جان ہو جائے گی تو ہرگز اس کا نام نہ لیتے۔ لیکن خدائے علیم وخبیر کو اپنی زبردست طاقت کا دکھلانا اور مرزائی پنداروغرور کو خاک میں ملانا منظور تھا اور یہ کہ اس کی طاقت وجبروت کے سامنے زور وزر اور تمام انسانی طاقتیں پرپشتہ کی سی بھی ہستی نہیں رکھتیں وہ چاہے تو بڑے بڑے
۱؎ جبکہ اخبار الحکم قادیان ۳۱؍جون ۱۹۰۳ء ایک مضمون بعنوان جہاد کی فلاسفی ص۷ کالم ۳ میں درج ہے اور دوسرا بعنوان ہمارے مقدمات ص۱۱ کالم۳ میں اس کی تصریح ہے۔