سر پر عطر ملاتھا یا ہاتھوں یا سر کے بالوں سے اس کے بدن کو چھوأ تھا یا کوئی بے تعلق جوان عورت اس کی خدمت کرتی تھی۔ اسی وجہ سے خدا نے قرآن میں یحییٰ کا نام حصور رکھا۔ مگر مسیح کا یہ نام نہ رکھا۔ کیونکہ ایسے قصے اس نام کے رکھنے سے مانع تھے۔‘‘
(دافع البلاء حاشیہ ص ٹائٹل ص۳، خزائن ج۱۸ ص۲۲۰)
تمام مرزائی دنیا کو کھلا چیلنج
دافع البلاء کی اس عبارت کو حل کر کے مرزاقادیانی کو کافر ہونے سے بچائیں۔ خلاصہ اس عبارت کا یہ ہے کہ: ’’یحییٰ نبی شرابی نہیں تھا اور یحییٰ نبی کنجریوں اور بے تعلق جوان عورتوں سے تعلق نہ رکھتا تھا۔ چونکہ خداتعالیٰ یحییٰ نبی کو ان دونوں عیبوں سے پاک سمجھتا تھا تو اسے قرآن میں حصور کہا۔ عیسیٰ علیہ السلام نبی شرابی تھے اور عیسیٰ نبی کنجریوں اور بے تعلق نوجوان عورتوں سے تعلق رکھتا تھا۔ چونکہ خداتعالیٰ ان دونوں عیبوں کو عیسیٰ علیہ السلام کی ذات میں آپ علم سے صحیح سمجھتا تھا۔ اسی وجہ سے قرآن میں اس کو حصور نہیں کہا اور یہ قصے یعنی عیوب خداتعالیٰ کو مانع ہوئے۔ قرآن میں حصور کہنے سے۔‘‘ اس عبارت میں جو کچھ ہے اگر اس کو صحیح مان لیا جائے تو خداتعالیٰ سے بھی ایمان اٹھ جاتا ہے کہ خدا ایسے اوباشوں کو حصور تو نہیں کہتا مگر نبی بنادیتا ہے۔ جب ایسے اوباش نبی ہوئے تو امت کو کیا ہدایت کریں گے۔ خدا کی پاک ذات پر بھی بڑا بھاری اتہام ہے۔ الامان الحفیظ!
مرزاقادیانی اپنے فتوے سے آپ کافر
فرماتے ہیں: ’’اسی وجہ سے ائمہ اور اہل تصوف لکھتے ہیں کہ جن لغزشوں کا انبیاء علیہم السلام کی نسبت خداتعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے۔ جیسا کہ آدم علیہ السلام کا دانہ کھانا اگر تحقیر کی راہ سے ان کا ذکر کیا جائے تو یہ موجب کفر اور سلب ایمان ہے۔ کیونکہ وہ مقبول ہیں۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۷۱، خزائن ج۲۱ ص۹۱)
مرزاقادیانی تحقیر کی راہ سے جن لغزشوں کا ذکر کر رہے ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت خدا نے تو ان کا کہیں ذکر نہیں کیا۔ جن لغزشوں کا خدا نے ذکر کیا ہے۔ اگر ان کو بھی تحقیر کی راہ سے ذکر کیا جائے تو سلب ایمان ہو جاتا ہے اور جن باتوں کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تحقیر کی راہ سے مرزاقادیانی ذکر کر رہے ہیں۔ یہ تو خدا کی بھی ذکر کردہ نہیں تو بدرجہ اولیٰ سلب ایمان ہوا۔ بالیقین مرزاقادیانی کافر ہوگئے اور ایمان سلب ہوگیا۔ بتلاؤ ایسا شخص نبی، مجدد، محدث کچھ ہوسکتا ہے یہ تو ادنیٰ درجہ کا مسلمان بھی نہیں۔ بحر کفر میں غرق ہے۔