رکھتا ہے کہ مجرد اس کے سننے سے ایک سچے مذہب میں داخل ہونے والے اپنے پاک مذہب کو الوداعی سلام کہہ دیں۔ دیکھئے!
بعض لوگ معراج جسمانی کو بعید از عقل سمجھ کر مرتد ہوگئے
چنانچہ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں۔ ’’اسری بالنبیﷺ الیٰ بیت المقدس ثم جاء من لیلۃ فحدثہم بمسیرہ وبعلامۃ بیت المقدس وبعیرہم فقال ناس لا نصدق محمدا بما یقول فارتدوا کفارا فضرب اﷲ رقابہم مع ابی جہل (درمنثور ص۱۸۸ ج۵)‘‘یعنی جب رسول اﷲﷺ بیت المقدس جاکر اسی رات واپس تشریف لے آئے اور آپ نے جانے کا واقعہ اور بیت المقدس کی علامتیں اور کفار کے قافلہ کا حال بیان فرمایا تو بہت سے لوگوں نے (اس کے وقوع کو مستبعد سمجھ کر کہا) کہ ہم ان امور میں رسول اﷲﷺ کی ہرگز تصدیق نہیں کر سکتے۔ چنانچہ وہ مرتد ہوگئے اور آخر ابوجہل کے ساتھ ان کی گردن ماری گئی۔ اسی روایت کے قریب قریب حضرت فتاوہؓ سے بھی مروی ہے۔
چنانچہ لکھا ہے: ’’واخرج ابن جریر عن قتادۃؓ وما جعلنا الرویا التی اریناک الا فتنۃ للناس یقول اراہ من الایات والعبرفی مسیرہ الی بیت المقدس ذکرلنا ان ناسا ارتدوا بعد اسلامہم حین حدثہم رسول اﷲﷺ (درمنثور ج۵ ص۲۷۱)‘‘ یعنی حضرت قتادہؓ کہتے ہیں کہ آیت ’’وما جعلنا الرویأ التی اریناک‘‘ سے وہ نشانیاں مراد ہیں جو بیت المقدس جانے کے وقت رسول اﷲﷺ کو دکھلائی گئیں۔ جب آپ نے وہ حالات بیان کئے تو بہت سے لوگوں نے براہ انکار آپ سے کہا کہ آپ تو ایسی بعید از عقل باتیں کرتے ہیں کہ میں ایک ہی رات میں بیت المقدس (جس کی مسافت دو مہینے کی ہے) جاکر واپس آگیا۔ باوجودیکہ وہ لوگ حلقہ اسلام میں داخل ہو چکے تھے۔ لیکن واقعہ معراج سن کر مرتد ہوگئے۔ ان روایات سے ظاہر ہے کہ واقعہ ظاہراً خلاف عقل ہونے کی وجہ سے ان مسلمانوں کے دل میں جگہ نہ پکڑ سکا اور نہ وہ اس کی تصدیق کی طرف مائل ہوئے۔ اسی وجہ سے پروردگار نے ان کے دلوں سے ایمان سلب کر لیا۔ غور کیجئے کہ کیا خواب میں بیت المقدس جانا اس قدر خلاف عقل تھا کہ مسلمان اس کے سننے کی تاب نہ لا سکے بلکہ سنتے ہی اپنے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یاد رکھئے! عقل اس بات کی کبھی تائید نہیں کرتی اور نہ مشاہدہ اس کا مؤید ہے۔ کیونکہ حالت