مصنف) کیونکہ یہ لوگ ہمارے محسن ہیں اور سلطنت برطانیہ کے ہمارے سر پر بہت احسان ہیں۔ (یہ کیا کم احسان ہے کہ آپ رسالت بلکہ الوہیت کے مدعی بن کر بھی صحیح وسلامت رہے۔ مصنف)‘‘
دوسری جگہ فرماتے ہیں: ’’سخت جاہل اور سخت نادان وہ مسلمان ہے جو اس گورنمنٹ سے کینہ رکھے۔ اگر ہم ان کا شکریہ نہ کریں تو پھر ہم خداتعالیٰ کے شکر گزار نہیں۔ کیونکہ ہم نے جو اس گورنمنٹ کے زیرسایہ آرام پایا۔ (خلق خدا کو لوٹا اور مزے اڑائے۔ مصنف) اور پارہے ہیں وہ ہم کسی اسلامی سلطنت میں بھی نہیں پاسکتے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۵۰۹، خزائن ج ۳ ص۳۷۳)
سچ ہے اسلامی گورنمنٹ کب گوارا کر سکتی تھی کہ آپ نبی ورسول کہلا کر اپنے مسکن کو دارالامان اپنے کنبہ کو اہل بیت اپنی مستورات کو امہات المؤمنین کے خطابات عطا کریں۔ اونچی مسجد کو مسجد اقصیٰ سے تعبیر کریں۔ تمام انبیاء ورسل پر اپنا تفوق ظاہر کر کے لکھیں ؎
آنکہ داد است ہر نبی راجام
داد آں جام را مرابتمام
(نزول المسیح ص۹۹، خزائن ج۱۸ ص۴۷۷)
غرض مرزاقادیانی عجیب ذوفنون شخص تھے ان کی ہر ایک بات ذومعنی ہوتی تھی جو کلام کرتے اس کے دونوں پہلو ملحوظ رکھا کرتے۔ چنانچہ دعویٰ نبوت میں بھی دونوں پہلو ملحوظ خاطر رہے۔ ادّعائے نبوت بھی کیا اور انکار نبوت بھی کرتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیچاری امت بھی ایسی پیچ دار کلام کے باعث بھول بھلیاں میں پڑی ہوئی ادھر ادھر بھٹکتی پھرتی ہے۔ ایک جماعت لاہوری کہتی ہے کہ مرزاقادیانی نے ہر گز نبوت کا دعویٰ نہیں کیا۔ جو ان کو مدعی نبوت سمجھے جھوٹا ہے بطّال ہے۔ دوسرا گروہ قادیانی کہتا ہے کہ مرزاقادیانی حقیقی نبی تھے۔ انہوں نے کھلے لفظوں میں نبی ورسول ہونے کا دعویٰ کیا جو ان کو نبی ورسول نہیں مانتا وہ مسلمان نہیں وہ صاف کافر ہے۔
اب ہم مرزاقادیانی کی کتابوں سے ادّعائے نبوت اور انکار نبوت ہر دو امور پر بتصریح عبارات روشنی ڈالتے ہیں۔
ادّعائے نبوت
مرزاقادیانی کے دعویٰ نبوت ورسالت پر ان کے حسب ذیل ارشادات شاہد عدل ہیں:
۱… ’’ہو الذی ارسل رسولہ بالہدیٰ میرے متعلق ہے۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۷۱، خزائن ج۲۳ ص۷۴)