جواب اوّل تو یہی ہے کہ آنے والے مسیح کے لئے ہمارے سیدولولا نے نبوت شرط نہیں ٹھہرائی بلکہ صاف طور پر یہی لکھا ہے کہ وہ ایک مسلمان ہوگا اور عام مسلمانوں کے موافق شریعت فرقانی کا پابند ہوگا اور اس سے زیادہ کچھ بھی ظاہر نہیں کرے گا کہ میں مسلمان ہوں اور مسلمانوں کا امام ہوں۔‘‘
(توضیح المرام ص۱۷،۱۸، خزائن ج۳ ص۵۹،۶۰)
مثل مسیح بننے کی کوشش
مثل مسیح کے تعلق سے مرزاقادیانی کے خیالات ملاحظہ فرمائیے: ’’اور مصنف کو اس بات کا بھی علم دیا گیا ہے کہ وہ مجدد وقت ہے اور روحانی طور پر اس کے کمالات مسیح ابن مریم کے کمالات سے مشابہ ہیں اور ایک کو دوسرے سے بہ شدت مناسبت اور مشابہت ہے۔‘‘
(اشتہار مندرجہ تبلیغ رسالت ج۱ ص۱۵،مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۲۴)
’’جس غلبہ کاملہ دین اسلام کا وعدہ دیاگیا ہے وہ غلبہ مسیح کے ذریعے ظہور میں آئے گا اور جب مسیح علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے تو ان کے ہاتھ سے اسلام جمع آفاق واقطار میں پھیل جائے گا۔ لیکن اس عاجز پر ظاہر کیاگیاہے کہ یہ خاکسار اپنی غربت اور انکسار اور توکل اور ایثار اور آیات اور انوار کی رو سے مسیح کی پہلی زندگی کانمونہ ہے اور اس عاجز کی فطرت اور مسیح کی فطرت باہم نہایت ہی متشابہ واقع ہوئی ہے۔ گویا ایک ہی جوہر کے دو ٹکڑے یا ایک ہی درخت کے دو پھل ہیں اور بہ حدے اتحاد ہے کہ نظر کشفی میں نہایت ہی باریک امتیاز ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ ص۴۹۹،حصہ۴، خزائن ج۱ ص۵۹۳، حاشیہ درحاشیہ۳)
’’مجھے مسیح ابن مریم ہونے کا دعویٰ نہیں اور نہ ہی میں تناسخ کا قائل ہوں بلکہ مجھے تو فقط مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ ہے جس طرح محدثیت نبوت سے مشابہ ہے۔ ایسا ہی میری روحانی حالت مسیح ابن مریم کی روحانی حالت سے اشد درجہ کی مشابہت رکھتی ہے۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۲۳۱ ، مندرجہ تبلیغ رسالت ج۲ص۲۱)
’’اس عاجز نے جو مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ کیا ہے جس کو کم فہم لوگ مسیح موعود خیال کر بیٹھے ہیں یہ کوئی نیا دعویٰ نہیں جو آج میرے منہ سے سنا گیا ہو بلکہ یہ وہی پرانا الہام جو میں نے خداتعالیٰ سے پاکر براہین احمدیہ کے کئی مقامات پر بتصریح درج کردیا تھا۔ جس کے شائع کرنے پر سات سال سے بھی کچھ زیادہ عرصہ گزر گیا ہوگا۔ میں نے یہ دعویٰ ہرگز نہیں کیاکہ میں مسیح ابن مریم