منامی میں انسان ایک بیت المقدس کیا بلکہ اگر ہزاروں بیت المقدس جتنی مسافت ہو طے کر لے جب بھی کوئی اسے بعید از عقل نہ سمجھے گا۔ خلاف عقل اسی وقت ہوسکتا ہے جب کہ واقعہ مذکورہ کو عالم بیداری سے تعبیر کیا جائے۔ اس واسطے رسول اکرمﷺ نے واقعہ اسراء لوگوں کے سامنے بیان کیا تو سوا صدیق اکبرؓ کے کسی نے بھی آپ کے بیان کی تائید نہ کی اور اس تائید وتصدیق کرنے کی بدولت اﷲتعالیٰ نے حضرت ابوبکرؓ کو صدیق جیسے بہترین لقب سے ملقب کیا۔
حضرت ابوبکرؓ کا لقب صدیق معراج ہی کی تصدیق سے ہوا
چنانچہ حضرت ام ہانیؓ نے معراج کا واقعہ بیان کر کے کہا ہے کہ: ’’قال المطعم کل امرک قبل الیوم کان امما غیر قولک الیوم انا اشہد انک کاذب نحن نضرب اکباد الابل الیٰ بیت المقدس مصعد اشہرا ومنحدرا شہرا تزعم انک اتیتہ فی لیلۃ واللات والعزے لا اصدقک فقال ابوبکرؓ یا مطعم بئس ما قلت لا بن اخیک جبہتہ وکذبتہ انا اشہد انہ صادق فقالوا یا محمد صف لنا بیت المقدس قال دخلتہ لیلا وخرجت منہ لیلا فاتاہ جبریل علیہ السلام فصورہ فی جناحہ فجعل یقول باب منہ کذافی موضع کذا وباب منہ کذافی موضع کذا وابی بکرؓ یقول صدقت صدقت فقال رسول اﷲﷺ یومئذ یا ابابکر ان اﷲ قد سماک الصدیق (درمنثور ج۵ ص۱۸۲)‘‘ جب رسول اﷲﷺ نے کفار کے آگے معراج کا واقعہ بیان کیا تو مطعم نے کہا کہ اب تک تو آپ کا معاملہ ٹھیک رہا۔ لیکن آج جو آپ یہ انوکھی بات سنا رہے ہیں اس سے معلوم ہوگیا کہ آپ جھوٹے ہیں۔ غضب ہے کہ ہم تو اونٹوں کو مار مار کے دومہینے میں بیت المقدس سے واپس آئیں لیکن آپ یہ فرماتے ہیں کہ میں ایک ہی رات میں بیت المقدس سے واپس آگیا۔ لات عزی کی قسم یہ بات تو میں آپ کی ہرگز نہ مانوں گا۔ ابوبکرؓ نے کہا کہ اے مطعم! تم نے تو بڑا گستاخانہ کلمہ اپنی زبان سے نکالا (اور علاوہ اس کے) تم نے اپنے بھتیجے (رسول اﷲﷺ کو) شرمندہ کیا اور آپ کی تکذیب کی (واﷲ) میں گواہی دیتا ہوں کہ خد اکے رسول سچے ہیں۔ (ابوبکرؓ یہ بات کہنے پائے تھے) کہ کفار نے کہا کہ اے محمد!(ﷺ) ذرابیت المقدس کا حال تو بیان کیجئے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ میں رات کے وقت اس میں داخل ہوا تھا اور رات ہی کو وہاں سے آیا۔ (مجھے اچھی طرح وہاں کی علامتیں یاد نہیں۔ آپ ابھی یہ فرماہی رہے تھے کہ) جبرائیل علیہ السلام آئے اور اپنے بازو میں بیت المقدس کا نقشہ