قرآن شریف سے معراج جسمانی کا ثبوت
قرآن شریف میں اﷲتعالیٰ فرماتا ہے: ’’سبحن الذی اسریٰ بعبدہ لیلاً من المسجد الحرام الیٰ المسجد الاقصیٰ (بنی اسرائیل:۱)‘‘ یعنی پاک ہے وہ ذات کہ جس نے راتوں رات اپنے بندے (محمدﷺ) کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک سیر کرائی۔
اس آیت اسراء میں قادر مطلق ذوالجلال نے مزید توضیح وتفہیم کے لئے بعبدہ فرمایا اور لفظ عبد معبّر ہے۔ جسد مع روح سے یعنی۔ عبد جس کے معنی ہیں بندہ کے روح وجسم دونوں کو کہتے ہیں۔ اگر انسان اسی لفظ عبد کو بغور ملاحظہ کرے تو فقط اسی لفظ سے رفع جسد مع روح ثابت ہوسکتا ہے۔ کیونکہ ارواح مجرد بغیر تعلق باالبدن کے قابل تسمیہ نہیں ہوتیں۔ ’’فافہم‘‘ اس وجہ سے قادر مطلق نے قرآن شریف میں جس جگہ لفظ عبد استعمال فرمایا ہے اس سے مراد روح اور جسم دونوں ہیں۔ چنانچہ سورۂ مریم میں فرمایا:
۱… ’’ذکر رحمۃ ربک عبدہ زکریا‘‘ یعنی یہ ذکر ہے تیرے رب کی رحمت کا جو زکریا پر ہوئی۔ یہاں لفظ عبد سے حضرت زکریا روح مع جسم مراد ہیں۔
۲… سورۂ جن میں ہے: ’’وانہ لمّا قام عبداﷲ یدعوہ کادوا یکونون علیہ لبداً‘‘ یعنی جب اﷲ کا بندہ خدا کو پکارنے کھڑا ہوتا ہے تو لوگ اس پر جھمگٹا کرنے لگتے ہیں۔ اس آیت میں عبد سے حضرت رسول اﷲﷺ بمع جسم وروح مراد ہیں۔ کیونکہ نماز پڑھنے صرف رسول اﷲﷺ کی روح نہیں کھڑی ہوتی تھی اور کفار صرف آپ کی روح پر ازدہام نہیں کرتے تھے۔
۳… سورۂ قمر میں ہے: ’’کذبت قبلہم قوم نوح فکذّبوا عبدنا وقالوا مجنون وازدجر‘‘ یعنی ان کفار مکہ سے پہلے نوح کی قوم بھی جھٹلا چکی ہے۔ پس انہوں نے ہمارے بندے کو جھٹلایا اور کہہ دیا کہ یہ تو دیوانہ اور دھتکارا ہوا ہے۔ اس جگہ بھی عبد سے مراد حضرت نوح علیہ السلام کی صرف روح ہی نہیں بلکہ روح اور جسم دونوں مراد ہیں۔
۴… سورۂ نجم میں فرمایا ہے: ’’فاوحیٰ الیٰ عبدہ ما اوحیٰ‘‘ یعنی پھر اس نے جو کچھ اپنے بندے پر وحی کرنی تھی کری۔ اس آیت میں بھی عبدہ سے مراد حضرت نبی کریمﷺ کا جسم مع روح مراد ہے۔ کیونکہ وحی صرف آپﷺ کی روح پر نہیں ہوا کرتی تھی۔
۵… سورۂ علق میں اس طرح فرمایا: ’’ارایت الذی ینہیٰ عبداً اذا صلّے‘‘ یعنی تو نے اس کو بھی دیکھا جو بندے کو نماز سے روکتا ہے۔ اس آیت میں بھی انہیں خاتم النّبیین سراج منیر کا