آخر دو سال کے بعد ۲۴؍اکتوبر ۱۹۰۴ء کو مرزاقادیانی عدالت لالہ آتمارام صاحب مجسٹریٹ گورداسپور سے اکرام عجیب کا یہ تمغہ ملا کہ آپ پانچ سو روپیہ جرمانہ ادا کریں۔ ورنہ ۶ماہ قید محض بھگتیں۔ بیشک مرزاقادیانی کے لئے یہ اکرام عجیب تھا جو عمر بھر میں آپ کو اس سے پہلے نہیں ملا تھا۔
مقدمہ بازی میں مرزاقادیانی کو شکست فاش
مقدمہ بازی فریقین کا خاتمہ جس قدر کہ ہوچکا ہے اس کے مجموعی حالات پر غور کرنے سے ثابت ہوتا ہے کہ قادیانی اور اس کی جماعت اس مقدمہ بازی میں ہرگز فتح یاب نہیں ہوئے۔ جیسا کہ ان کے مرید ظاہر کر رہے ہیں بلکہ اس مقدمہ بازی نے ان کی وقعت اور ان کی صداقت کی ساری قلعی کھول دی ہے۔ سوچنے والے مجموعی نتائج پر غور کر کے صاف قائل ہوں گے کہ مرزااور اس کے گروہ نے اس مقدمہ بازی میں سخت شکست کھائی اور اس مقدمہ بازی کے ذریعہ پبلک کو مرزاسے سخت بے اعتقادی حاصل ہوئی اور روز روشن کی طرح واضح ہوگیا کہ مرزاقادیانی کے دعاوی ملہمیت، مسیحیت، نبوت وغیرہ سب غلط ہیں۔
اس بارہ میں امور ذیل قابل توجہ ہیں:
اوّل… اس مقدمہ بازی کا سلسلہ اوّل مرزائیوں نے چھیڑا اور مرزاقادیانی کی خاص ہدایت سے چھیڑا گیا اور اس سلسلہ کے چھیڑنے سے وہ اعتراضات ذیل کا نشانہ بنے ہیں۔
۱… مرزاقادیانی کا دعویٰ یہ ہے کہ وہ بحیثیت مسیح موعود خود حکم عدل ہیں۔ پھر انکو ہر گز شایان نہ تھا کہ وہ فیصلہ نزاع کے لئے اور کسی حکم کے محتاج ہوتے۔ کیا کسی حدیث سے ثبوت ملتا ہے کہ مسیح موعود اپنے ظہور کے وقت عدالتوں میں مقدمات بھی لڑیں گے۔
۲… خداوند تعالیٰ کا مسلمانوں کو یہ ارشاد ہے۔ ’’فان تنازعتم فی شیٔ فردوہ الیٰ اﷲ والرسول‘‘ یعنی اگر تم مسلمانوں میں کسی امر میں تنازع ہو تو خدا اور اس کے رسول کے سپرد کردو۔ پھر مرزاقادیانی نے کیوں اس آیت قرآنی کا خلاف کر کے حکیم فضل دین مخلص حواری کو ہدایت فرمائی کہ بجائے اس کے کہ معاملہ کو خدا اور رسول کے سپرد کریں۔ رائے گنگا رام صاحب مجسٹریٹ کی عدالت کی طرف رجوع کریں۔
۳… یہ مقدمہ بازی ایک سخت فتنہ پردازی تھی جس میں مسلمانوں کی جان ومال دو سال تک مبتلا رہی اور خداوند عالم نے فرمایا ہے: ’’والفتنۃ اشدّ من القتل‘‘ مرزاقادیانی مسیح موعود ہوتے تو بجائے اس کے کہ مسلمانوں میں امن اور صلح قائم کریں۔ یہ بدامنی ہرگز نہ پھیلاتے جو کہ