کے خریدار تین سو دلائل حقانیت اسلام مانگتے ہیں۔ وہ تو نہ لکھے جاسکے ان کو نشانات کی شکل میں لاکر خریداروں کی آنکھ میں خاک جھونکنے کی کوشش کی گئی۔ ایک ایک واقعہ کے بارہ بارہ پندرہ پندرہ نمبر دکھلائے گئے۔ پھر بھی تین سو کی تعداد پوری نہ ہوئی۔ خسرالدنیا والآخرۃ!
مرزاقادیانی کی پیش گوئی مقدمات سے انکار
اب جب جناب والا کو مقدمات سے مر کر نجات ملی۔ پیش گوئیوں کی بھرمار ہونے لگی ہے۔ لیکن دوران مقدمہ میں ایسی کوئی پیش گوئی ہونے سے صاف انکار فرماتے رہے۔ چنانچہ آپ نے جو بیان حلفی بمقدمہ حکیم فضل دین بنام مولوی کرم الدین جرم ۴۲۰ تعزیرات ہند عدالت لالہ چندولال صاحب مجسٹریٹ میں بحیثیت گواہ صفائی لکھایا۔ اس میں صاف بیان کیا۔ ’’(مواہب الرحمن جنوری ۱۹۰۳ئ) میں شائع ہوئی۔ اس سے پہلے لکھی گئی تاریخ لکھنے کی یاد نہیں ہے۔ کیونکہ بشریت ساتھ ہے۔ اچھی طرح یاد نہیں ہے کہ کتاب کب چھپی ہے۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ کب لکھی گئی اور کب شروع ہوئی۔ البتہ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ جب جہلم گیا تھا تو اس وقت یہ کتاب ساتھ گئی تھی۔ یعنی چھپی ہوئی تھی۔ (مواہب الرحمن ص۱۲۹، خزائن ج۱۹ ص۳۵۰) میں نے دیکھی اس میں کرم الدین کا حوالہ ہے۔ مقدمہ کا ذکر نہیں ہے۔ مگر اگلے (ص۱۳۰، خزائن ج۱۹ ص۳۵۱) پر استغاثہ کا ذکر ہے جو کرم الدین کی طرف سے ہوا۔‘‘
اس بیان میں آپ نے کتنے ہیرپھیر کئے ۔ پہلے صاف فرمایا کہ ص۱۲۹ پر مقدمہ کا ذکر نہیں ہے۔ حالانکہ اب اسی صفحہ کی عبارت کو مقدمہ کی پیش گوئی بتایا جاتا ہے۔ آخر مجبور ہوکر دبی زبان سے کہنا پڑا کہ ص۱۳۰ پر استغاثہ کا ذکر ہے۔ اگر یہ پیش گوئی منجانب اﷲ تھی تو کیوں نہ صاف صاف فرمادیا۔ یہ تو مقدمہ فوجداری کرم الدین کی نسبت پیش گوئی تھی جو پوری ہوئی اور مقدمہ خارج ہوگیا۔
اب دیکھئے! قادیانی حکیم الامۃ مولانا نور الدین خلیفہ اوّل اس عبارت کے متعلق کیا فرماتے ہیں۔ آپ نے جو بیان حلفی بمقدمہ مولوی کرم الدین بنام مرزاغلام احمد بحیثیت گواہ صفائی بعدالت لالہ آتمارام صاحب مجسٹریٹ درجہ اوّل گورداسپور میں لکھایا۔ اس میں صاف لکھاتے ہیں کہ ’’اس میں مقدمات کا کچھ تعلق نہیں۔ نہ تین حامیوں سے مراد تین وکیل ہیں بیان یوں ہے۔ میں نے یہ کتاب مواہب الرحمان پڑھی ہے۔ مثل عربی خوانوں کے جو اس کتاب کو سمجھ سکتے ہیں میں سمجھا کہ مرزاقادیانی کہتے ہیں کہ مجھے خدا نے خبر دی ہے۔