صلیب کی شکست ہے۔ ابھی تو میں خنزیروں کو قتل کر رہا ہوں۔‘‘
(ملفوظات احمدیہ حصہ پنجم ص۲۶۳،۲۶۴)
مرزاقادیانی اچھی طرح واقف تھے کہ مسیلمہ کذاب کا کیا انجام ہوا۔ جس نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا۔ مسیلمہ کذاب اور ان کے ساتھیوں کو خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیق اور صحابہ رضوان اﷲ علیہم اجمعین نے واصل جہنم کیا۔ کیا مرزاقادیانی کو اس بات کا شعور نہیں تھا کہ مدعی نبوت کا انجام سرزمین حجاز میں کیا ہوتا ہے؟ مسیلمہ کذاب جیسا حشر ہوگا اسی لئے زیارت بیت اﷲ سے محروم رہے جو ارکان اسلام میں سے ایک اہم رکن ہے۔
پھر خداتعالیٰ نے غلام احمد قادیانی کو حج جیسی عظیم عبادت سے محروم کر کے امام مہدی اور عیسیٰ مسیح ہونے کے ان تمام دعوؤں کو مٹی میں ملادیا۔ کیونکہ امام مہدی مدینہ منورہ میں پیدا ہوں گے۔ ان کا نام محمد ہوگا اور والد محترم کا اسم عبداﷲ اور حجر اسود ومقام ابراہیم کے درمیان بیعت لیں گے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام دمشق کے مشرقی منارہ کے قریب دو فرشتوں کے سہارے سے نزول فرمائیں گے اور سید المرسلین وخاتم النّبیینﷺ کی قبر کے نزدیک مدفون ہوں گے۔ اب یہ بات تو مرزاغلام احمد قادیانی کے امتی قادیانی ہی بتائیں گے کہ ان کے نبی نے کتنے سور قتل کئے اور کتنی صلیبیں توڑیں۔
مرزاقادیانی اور جہاد فی سبیل اﷲ
جہاد فی سبیل اﷲ ایک اہم فریضہ ہے جس کو منسوخ کرانے کے لئے قادیانی نبوت ورسالت کی بنیاد رکھی گئی۔ ورنہ تکمیل دین کے بعد اب کسی نبی اور رسول کی ضرورت ہی باقی نہیں رہ گئی تھی اورانسانی زندگی کا کون سا ایسا حصہ باقی رہ گیا تھا جس کی طرف رسول اکرم خاتم النّبیینﷺ نے رہنمائی نہ فرمائی ہو اور نہ ہی دین میں کوئی ایسی گرانی پائی جارہی تھی جس کا منسوخ کیاجانا ضروری تھا۔ قادیانیت کے سارے تانے بانے جہاد کو منسوخ کرانے کے لئے بنے گئے۔ انگریز جب ہندوستان میں آئے تو ان کی حکومت کے استحکام کے لئے ضروری تھا کہ یہاں کے عوام ان کی اطاعت کو وفاداری کے ساتھ قبول کر لیتے۔ لیکن ان کو اس سلسلے میں کامیابی نظر نہیں آرہی تھی۔ اس کے لئے ضروری تھا کہ مسلمانوں کے دل سے جذبۂ جہاد کی عظمت کا خاتمہ کیا جاتا۔ یہ کام ایک ایسی شخصیت ہی کر سکتی تھی جس کو مسلمانوں کا حددرجہ اعتماد حاصل ہوتا۔