’’اور ایک ایسا شخص جو مرزاقادیانی کو اچھا مانتا ہے لیکن بیعت نہیں اس کا نماز جنازہ بھی جائز نہیں۔‘‘ (اخبار الفضل مورخہ ۱۹؍مئی ۱۹۱۵ئ)
مراق کا مرض
مرزاقادیانی نے اپنی تصانیف میں جابجا اعتراف کیا ہے کہ انہیں مراق کا مرض تھا۔ ان کے اور ان کے پیروؤں کی تصانیف کے چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیے۔ مراق کا مرض مرزاقادیانی کو موروثی نہ تھا۔ بلکہ خارجی اثرات کے ماتحت پیدا ہوا تھا۔ اس کا باعث سخت تفکرات وغم اور دماغی محنت اور سؤ ہضم تھا۔
ڈاکٹر شاہ نواز صاحب قادیانی (ریویو قادیان اگست ۱۹۳۰ئ) ’’جب خاندان سے ابتداء ہوچکی تو پھر اگلی نسل میں یہ مرض منتقل ہوتا ہے۔ مالیخولیا کی ایک قسم ہے جس کو مراق کہتے ہیں۔ جس عضو میں یہ مادہ ہوتا ہے اس سے بخارات اٹھ کر دماغ کو چڑھتے ہیں۔‘‘
(شرع اسباب ج۱ ص۷۴،نولکشور پریس لکھنؤ)
ووکنگ مسجد مرزائیوں کی نہیں
پچھلے دنوں میں نے اپنے ایک مضمون میں جو شاید دسمبر ۱۹۳۴ء یا جنوری ۱۹۳۵ء میں شائع ہوا۔ برلن ولندن کی مسجدوں کے قالینوں وپرووں کے لئے چندے جمع ہونے اور مسلمانوں کی جیبوں پر مرزائیوں کے ڈاکہ کا ذکر کیا تھا۔ لیکن آج تفصیل سے میں اس پر کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ معلوم نہیں یہ غلط خیال ہندوستان میں کس طرح پھیل گیا کہ ووکنگ مسجد لاہوری مرزائیوں کی تعمیر کردہ ہے۔ یہ مسجد سرکار بھوپال کے روپیہ سے تیار ہوئی تھی اور مسجد کے ساتھ رہائش کا مکان سالار جنگ حیدرآباد کی یادگار ہے۔
اور دونوں کی تعمیر ایک جرمن عالم ڈاکٹر لائٹنر کے اہتمام میں ہوئی تھی۔ ڈاکٹر لائٹنر کو اسلام سے بڑا انس تھا اور عوام کا خیال تھا کہ وہ دل سے مسلمان تھے۔ ہندوستان میں سررشتہ تعلیم میں ملازم تھے۔ کچھ عرصہ کے لئے انسپکٹر آف سکولز اور پنجاب یونیورسٹی کے رجسٹرار مقرر ہوئے۔ ان کا خیال تھا کہ انگلستان میں بھی ہندوستان کا ایک نشان قائم کر دیا جائے۔
لندن میں مرزائیوں کی تبلیغ کی حقیقت
ان ہی ایام میں خواجہ کمال الدین کو ایک پرانے مسلمان لارڈ ہنڈلے مل گئے۔ وہ قریباً چایس سال سے مسلمان تھے۔ لیکن مسلمانوں کی مجلس نہ ملنے کی وجہ سے وہ طریق اسلام کے اظہار