ختم نبوت از احادیث
حدیث اوّل: ’’وعن ثوبانؓ الیٰ قولہ انہ سیکون فی امتی کذابون ثلاثون کلہم یزعم انہ نبی اﷲ وانا خاتم النبیین لا نبی بعدی (ابوداؤد ج۲ ص۱۲۷، ترمذی ج۲ ص۴۵، مشکوٰۃ کتاب الفتن)‘‘ {ضرور میری امت میں تیس کذاب (جھوٹے) پیدا ہوں گے۔ ہر ایک ان میں سے نبوت کا دعویٰ کرے گا۔ حالانکہ میں نبیوں کا ختم کرنے والا ہوں۔ میرے بعد کوئی نبی پیدا نہ ہوگا۔ معلوم ہوا کہ امت محمدیہ میں جو شخص مدعی نبوت ہو وہ کذاب ہے۔ جیسا کہ مرزاغلام احمد وغیرہ۔}
اعتراض: مرزائی کہتے ہیں کہ حدیث میں تیس کی تعیین کی گئی ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعد میں کچھ سچے بھی آویں گے۔
جواب… یہ احتمال ناشی عن الدلیل نہیں۔ اس لئے مردود ہے نیز اس کے متعلق حدیث کے یہ الفاظ ہی کافی ہیں۔ ’’لا نبی بعدی‘‘
اعتراض: سین فعل مضارع پر داخل ہوکر استقبال کے معنوں میں کر دیتا ہے۔ اس صورت میں اس حدیث کے معنے یہ ہوں گے کہ وہ کذاب وغیرہ عنقریب پیدا ہوں گے۔
جواب… اس امر کا تو مرزاقادیانی کو بھی اعتراف ہے کہ وہ دجال قیامت کے قریب تک ہوں گے۔ کیا مرزاقادیانی علوم عربی سے نابلد تھے۔ چنانچہ لکھتے ہیں۔ ’’آنحضرتﷺ فرماتے ہیں کہ دنیا کے آخیر تک تیس کے قریب تک دجال پیدا ہوں گے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۱۹۹، خزائن ج۳ ص۱۹۷)
جواب ثانی
اس میں شک نہیں کہ سین فعل مضارع پر داخل ہوکر اس کو مستقبل قریب کے معنے میں کر دیتا ہے۔ مگر حدیث کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ کاذب حضورﷺ کے زمانہ کے ساتھ فوراً ہی آجائیں گے۔ اس لئے کہ قرب وبعد امور اضافیہ میں سے ہیں۔ ایک چیز ایک شخص کی نظروں میں قریب ہوتی ہے اور دوسرے کی نظروں میں بعید۔ جیسا کہ حضور پرنورﷺ نے ایک دفعہ اپنے ہاتھ کی انگلیوں کو ملا کر فرمایا۔ ’’انا والساعۃ کہاتین (بخاری ج۲ ص۹۶۳)‘‘ {یعنی قیامت میں اور مجھ میں اس طرح اتصال ہے۔}
تو جس طرح حضورﷺ کی بالغ نظری کے لحاظ سے قیامت قریب ہے اور ہماری کم نگاہی کے لحاظ سے بعید ایسے ہی ان کذابوں کا آنا حضورﷺ کے لحاظ سے بالکل قریب ہے اور ہمارے لحاظ سے بعید۔ اس قسم کی مثالیں قرآن مجید میں بکثرت موجود ہیں۔