اگر قدرت ہے تو اس کا جواب دیں۔ علامہ ممدوح نے سورہ فاتحہ کی ایک مکمل تفسیر بے نقط حروف میں لکھی تھی قلمی موجود ہے۔ نیز آپ کی ایک کتاب علم فرائض میں عربی نظم میں اشعار کی چھپی ہوئی ہے جس کو دیکھنے سے علامہ ممدوح کے تبحر علمی کا اور علم ادب میں قابلیت کا پتہ چلتا ہے۔ ہاں! مرزائی صاحبان نے علامہ فیضی فیاضی (وزیر دربار اکبری) کی تفسیر سواطع الالہام تو ضرور دیکھی ہوگی۔ جو ایک ضخیم تفسیر قرآن بے نقط حروف میں ہے۔ پھر انصاف کریں کہ مرزاقادیانی کی تصانیف کی اس کے مقابلہ میں کیا حقیقت ہے۔ غرض مرزاقادیانی کی ایسی اناپ شناپ اغلاط سے بھرپور تصانیف بھی ان کی نبوت رسالت یا صداقت کی ہرگز دلیل نہیں ہوسکتیں۔ جن پر مرزائی ناز کر رہے ہیں۔
مرزاقادیانی کے نشانات
مرزاقادیانی خدا کا خوف نہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: ’’میری تائید میں اس نے وہ نشان ظاہر فرمائے ہیں کہ آج کی تاریخ سے جو ۱۶؍فروری ۱۹۰۶ء ہے۔ اگر میں ان کو فرداً فرداً شمار کروں تو میں خداتعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ تین لاکھ سے بھی زیادہ ہیں اور اگر کوئی میری قسم کا اعتبار نہ کرے تو میں اس کو ثبوت دے سکتا ہوں۔ ‘‘ (حقیقت الوحی ص۶۷، خزائن ج۲۲ ص۷۰)
پھر (تحفہ گولڑویہ ص۴۰، خزائن ج۱۷ ص۱۵۳) پر لکھا ہے کہ ’’رسول اﷲ سے ۳ہزار معجزے ظاہر ہوئے۔‘‘
اس سے ثابت ہوا کہ معاذ اﷲ معجزنمائی میں آپ کو رسول اﷲﷺ پر بھی فضیلت ہے۔ ہاں! جناب آپ کی قسم پر اعتبار کر کے تو ایسا جھوٹ جو زمین وآسمان میں نہیں سما سکتا کون تسلیم کر سکتا ہے۔ ہم آپ سے اس پر ثبوت مانگتے ہیں۔ بتلائیے! وہ کیا ہے آپ نے اپنی آخری تصنیف حقیقت الوحی میں جو اپنے نشانات کی فہرست دی ہے۔ باوجودیکہ ایک ایک واقعہ کو دس دس بارہ بارہ دفعہ بیان کر کے تعداد بڑھانے کی کوشش کی ہے۔ پھر بھی نشانات کا آخری نمبر ۲۰۵ تک پہنچ سکا ہے۔ اگر تین لاکھ نشان تھے تو کم سے کم تین ہزار اگر یہ بھی نہیں تو تین سو تو پورے کرتے۔ (جھوٹ کی حد ہوگئی)
آپ نے (اعجاز احمدی ص۱، خزائن ج۱۹ ص۱۰۷) میں یہ بھی تحریر فرمایا ہے:’’ میری پیشین گوئیوں کے مصدق ۶۰لاکھ ہیں۔‘‘ ذرا ان کا اتہ پتہ ہی بتا دیا ہوتا ؎
تاسیاہ روئے شود ہر کہ دروغش باشد