مولوی کرم الدین صاحب کی فتح
’’۱۴؍جنوری ۱۹۰۴ء کو مرزائیوں کا وہ الہامی مقدمہ فوجداری جو منجانب حکیم فضل دین مرزاقادیانی کے خاص حکم سے برخلاف مولوی صاحب موصوف دائر کیا گیا تھا اور جو ۱۴ماہ سے چل رہا تھا اور جس کی نسبت مرزاقادیانی کو متواتر نصرت وفتح کے الہامات بارش کی طرح برس رہے تھے۔ آخرکار انصاف مجسم حاکم جناب بابو چندولال صاحب بی۔اے مجسٹریٹ درجہ اوّل گورداسپور کی عدالت سے خارج ہوگیا اور مولوی صاحب عزت سے بری ہوگئے۔ اس تاریخ کو بہت سے احمدی جماعت کے ممبر دور دور سے مسافت طے کر کے آخری حکم سننے کے لئے جمع ہوگئے تھے اور منتظر تھے کہ مرزاقادیانی کا تازہ نشان (فتح مقدمہ) دیکھیں۔ لیکن صاحب مجسٹریٹ کا یہ حکم سن کر سب کے رنگ فق ہو گئے اور وہ سب امیدیں جو مرشد جی نے مدت دراز سے فتح اور ظفر کی دلا رکھیں تھیں۔ خاک میں مل گئیں اور مرزاقادیانی کے الہام کی قلعی کھل گئی۔
کیوں جی مرزائی صاحبان سچ بتائیے گا۔ وہ الہام ’’جائک الفتح ثم جائک الفتح‘‘ (تذکرہ ص۴۷۶ طبع۳) کیا ہوا اور وہ مجموعہ فتوحات کا وعدہ کہاں اڑ گیا اور انجام مقدمات کی پیشین گوئی کیا ہوئی اور ان تازہ الہامات مشتہرہ الحکم ۱۷،۲۴؍دسمبر ۱۹۰۳ء ہماری فتح، ہمارا غلبہ ’’ظفر من اﷲوفتح مبین‘‘ وغیرہ وغیرہ کا کیا حشر ہوا۔ آپ کے حضرت حجۃ اﷲ نے تو جیسا کہ الحکم مذکور میں چھپا خواب میں اصحاب القبور (مردگان) کے سامنے بھی ہاتھ جوڑے اور دعائیں کرائیں۔ لیکن افسوس کہ وہ سب محنت اکارت گئی۔ سچ ہے ’’وعندہ مفاتح الغیب لا یعلمہا الاّ ہو‘‘ کیا مرزائی صاحبان اس معاملہ پر غور نہیں فرماویں گے۔ یارو خدارا انصافے الیس منکم رجل رشید! ذرا مرزاقادیانی سے یہ تو پوچھئے گا کہ آپ نے خود انجام مقدمات کی پیش گوئی اس آیت سے فرمائی تھی۔ ’’ان اﷲ مع الذین اتقوا والذین ہم محسنون‘‘ اب آپ ہی فرمائیے۔ اہل تقویٰ آپ بنے یا آپ کے مخالف؟ میدان تو مولوی صاحب جیت گئے۔ خدا کی نصرت ان کی یاور ہوئی۔ پھر یا تو آپ کو اپنے ملہم پر صاف بدظن ہوجانا چاہئے یا اس کا فیصلہ مان لیجئے کہ حق آپ کے خلاف ہے۔ ایک اور آیت بھی آپ نے الحکم میں اس مقدمہ کی پیش گوئی میں شائع فرمائی تھی۔ ’’الم ترکیف فعل ربک باصحاب الفیل الم یجعل کیدہم فی تضلیل وارسل علیہم طیراً ابابیل ترمیہم‘‘ سو اب آپ ہی تشریح فرمائیے کہ اصحاب الفیل اس موقعہ پر کون ہیں اور ان کے مقابلہ میں مظفر ومنصور کون؟ ہم تو گورداسپور میں جہاں تک دیکھتے رہے۔ آپ کی ہی پارٹی بڑے کرّوفر سے رتھوں اور گاڑیوں پر سوار ہوکر آتی تھی۔ پھر آپ