جناب الٰہی میں دعا کی کہ تو اس امر میں فیصلہ کر اور ہم عاجز تیرے بندے ہیں تو اس نے مجھے نشان دیا کہ اس بحث میں دونوں فریقوں میں سے جو فریق عمداً جھوٹ کو اختیار کر رہا ہے اور سچے خدا کو چھوڑ رہا ہے اور عاجز انسان کو خدا بنا رہا ہے۔ وہ انہیں دنوں مباحثہ کے لحاظ سے یعنی فی دن ایک مہینہ لے کر یعنی ۱۵ماہ تک ہاویہ میں گرایا جائے گا اور اس کو سخت ذلت پہنچے گی۔ بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے اور جو شخص سچ پر ہے اور سچے خدا کو مانتا ہے اس کی عزت ظاہر ہو گی۔‘‘
(جنگ مقدس ص۱۸۸،۱۸۹، خزائن ج۶ ص۲۹۲)
اس پیش گوئی کی مزید تشریح اگلے صفحہ پر مرزاقادیانی کی طرف سے یوں درج ہے: ’’میں اقرار کرتا ہوں کہ اگر یہ پیش گوئی جھوٹی نکلے یعنی وہ فریق جو خدا کے نزدیک جھوٹ پر ہے پندرہ ماہ کے عرصے میں آج کی تاریخ ۵؍جون ۱۸۹۳ء سے سزائے موت ہاویہ میں نہ پڑے تو میں ہر ایک سزا کے اٹھانے کے لئے تیار ہوں۔ مجھ کو ذلیل کیا جاوے۔ روسیاہ کیا جاوے۔ میرے گلے میں رسا ڈال دیا جاوے۔ مجھ کو پھانسی دی جاوے۔ ہر ایک بات کے لئے تیار ہوں۔ اﷲ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ضرور وہ ایسا ہی کرے گا۔ ضرور کرے گا۔ ضرور کرے گا۔ زمین وآسمان ٹل جائیں پر اس کی باتیں نہ ٹلیں گی… اگر میں جھوٹا ہوں تو میرے لئے سولی تیار رکھو اور شیطانوں اور بدکاروں اور لعنتیوں سے زیادہ مجھے لعنتی قرار دو۔‘‘ (جنگ مقدس ص۱۸۹،۱۹۰، خزائن ج۶ ص۲۹۳)
الفاظ مذکورہ بالا صاف ہیں کہ ڈپٹی عبداﷲ آتھم ۵؍جون ۱۸۹۳ء سے ۱۵ماہ مورخہ ۵؍ستمبر ۱۸۹۴ء تک مر جائے گا۔ بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے۔ (مسلمان نہ ہو جائے) اگر ایسا نہ ہوا تو مرزاقادیانی ایسے اور ویسے۔ چونکہ مرزاقادیانی یہ پیش گوئی کرنے میں مفتری علی اﷲ تھے۔ اس لئے پوری نہ ہوئی اور مسٹر عبداﷲ آتھم بچ گیا۔ (انوار الاسلام ص۲، خزائن ج۹ ص۲)
مرزائی عذر نمبر:۱
’’آتھم کی موت کی پیش گوئی ہماری ذاتی رائے تھی۔ اصل پیش گوئی میں ہاویہ کا لفظ ہے اور پیشین گوئی کے دنوں میں عبداﷲ کا ڈرتے رہنا اور شہر بہ شہر بھاگتے پھرنا۔ یہی اس کا ہاویہ ہے۔‘‘ (مفہوم انوارالاسلام ص۴،۵، خزائن ج۹ ص۴،۵)
الجواب… مرزاقادیانی کی پیش گوئی کے الفاظ پر نظر ڈالو کس قدر زور ہے اور مرزاقادیانی لکھتے ہیں کہ: ’’نفس پیش گوئی تو اس کی موت تھی۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۱۸۶، خزائن ج۲۲ ص۱۹۳)
’’الہامی عبارت میں شرطی طور پر عذاب موت کا وعدہ تھا۔‘‘
(انوارالاسلام ص۴، خزائن ج۹ ص۵)