مگر مولوی صاحب نے ۱۰؍جنوری ۱۹۰۳ء کو قادیان پہنچ کر یہ پیش گوئی غلط ثابت کر دی۔
چھٹی پیش گوئی: خواتین مبارکہ
’’اور خواتین مبارکہ سے جن میں سے تو بعض کو اس (نصرت بیگم) کے بعد پائے گا۔ تیری نسل بہت ہوگی۔‘‘ (اشتہار مورخہ ۲۰؍فروری ۱۸۸۶ئ، مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۱۰۲)
اس الہام کے بعد نہ کوئی نکاح ہوا نہ خواتین مبارکہ یا نامبارکہ حاصل ہوئیں اور نہ اولاد۔ محمدی بیگم والا نکاح شاید اس الہام کو سچ کر دیتا۔ مگر اﷲ نے نہ چاہا کہ جھوٹ کو سچ کردکھائے۔
ساتویں پیش گوئی: مبارک احمدکی صحت
’’ڈائری ۲۷؍اگست ۱۹۰۷ء صاحبزادہ مبارک احمد صاحب سخت تپ سے بیمار ہیں اور بعض دفعہ بیہوشی تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ ان کی نسبت آج الہام ہوا قبول ہوگئی۔ نو دن کا بخار ٹوٹ گیا۔ یعنی دعا قبول ہوگئی کہ اﷲ تعالیٰ میاں موصوف کو شفا دے۔‘‘
(میگزین ستمبر ۱۹۰۷ئ، تذکرہ ص۷۲۸، طبع سوم)
’’یہ لڑکا ۱۶؍ستمبر ۱۹۰۷ء کو صبح کے وقت فوت ہوگیا۔‘‘ (میگزین اکتوبر ۱۹۰۷ئ)
اس لئے صحت کا الہام غلط ہوا۔
آٹھویں پیش گوئی: مولانا بٹالوی کا قادیانی ہونا
مولانا محمد حسین بٹالویؒ کے متعلق مرزاقادیانی نے ایک پیش گوئی کر رکھی تھی کہ: ’’ہم اس کے ایمان سے ناامید نہیں ہوئے۔ بلکہ امید بہت ہے۔ اسی طرح خدا کی وحی خبر دے رہی ہے کہ (اے مرزا) تجھ پر خداتعالیٰ تیرے دوست محمد حسین کا مقسوم ظاہر کر دے گا۔ سعید ہے پس روز مقدر اس کو فراموش نہیں کرے گا اور خدا کے ہاتھوں سے زندہ کیا جاوے گا اور خدا قادر ہے اور رشد کا زمانہ آئے گا اور گناہ بخش دیا جائے گا۔ پس پاکیزگی اور طہارت کا پانی اسے پلائیں گے اور نسیم صبا خوشبو لائے گی اور معطر کر دے گی۔ میرا کلام سچا ہے میرے خدا کا قول ہے جو شخص تم میں سے زندہ رہے گا دیکھ لے گا۔‘‘
(اعجاز احمدی ص۵۰،۵۱، خزائن ج۱۹ ص۱۶۲)
الفاظ مرقومہ بالا سے صاف عیاں ہے کہ مولوی محمد حسین بٹالویؒ ایک نہ ایک دن ضرور مرزاقادیانی پر ایمان لے آئیں گے۔ حالانکہ یہ پیش گوئی بھی صاف جھوٹی ہوئی۔