۳… یہ ایک پیش گوئی ہے اور اس کا حقیقت اسلام سے کچھ بھی تعلق نہیں۔
۴… اس کے بیان نہ کرنے سے اسلام ناقص نہیں ہوتا اور بیان کرنے سے کامل نہیں ہوتا۔
حوالہ نمبر۴… ’’یہ حیات مسیح کی غلطی دراصل آج نہیں پڑی بلکہ میں جانتا ہوں کہ آنحضرتﷺ کے تھوڑے ہی عرصہ بعد یہ غلطی پھیل گئی تھی اور کئی خواص اور اولیاء اور اہل اﷲ کا یہی خیال تھا اگر یہ کوئی ایسا اہم امر ہوتا تو خداتعالیٰ اس زمانہ میں اس کاازالہ کر دیتا۔‘‘
(رسالہ احمدی اور غیراحمدی میں کیا فرق ص۲)
اس حوالہ سے یہ چند امور واضح ہوتے ہیں:
۱… حیات مسیح کا عقیدہ آنحضرتﷺ کے تھوڑے ہی عرصہ بعد پھیل گیا تھا۔
۲… کئی خواص اولیاء اہل اﷲ کا یہی عقیدہ تھا۔
۳… یہ کوئی ایسا اہم امر نہیں ہے جس کا ازالہ خداتعالیٰ نے ضروری سمجھا ہو۔
حوالہ نمبر۵… ’’اگر مسیح موعود کے ظہور سے پہلے اگر امت میں سے کسی نے یہ خیال بھی کیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ دنیا میں آئیں گے تو ان پر کوئی گناہ نہیں۔ صرف اجتہادی خطا ہے جو اسرائیلی نبیوں سے بھی بعض پیش گوئیوں کے سمجھنے میں ہوتی رہی ہے۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۳۰ حاشیہ، خزائن ج۲۲ص۳۲)
اس حوالہ سے یہ چند امور واضح ہوئے:
۱… نزول عیسیٰ علیہ السلام کے معتقد پر کوئی گناہ نہیں ہے۔
۲… یہ محض اجتہادی خطا ہے اور اس قسم کی خطا اسرائیلی نبیوں سے بھی ہوتی رہی۔
حوالہ نمبر۶… ’’ہماری یہ غرض ہرگز نہیں کہ مسیح علیہ السلام کی وفات وحیات پر جھگڑے اور مباحثے کرتے پھرو۔ یہ ایک ادنیٰ سی بات ہے۔‘‘ (ملفوظات احمدیہ ج۲ ص۲۱۴)
اس حوالہ سے یہ واضح ہو گیا کہ:
۱… مرزائیوں کی یہ غرض نہیں ہونی چاہئے کہ وفات وحیات مسیح پر مباحثے وجھگڑے کریں۔
۲… یہ ایک ادنیٰ سی بات ہے۔
سو ہم کہتے ہیں کہ جب یہ مسئلہ مرزائیوں کے ایمانیات کی جز نہیں ہے۔ جب یہ دین کے رکنوں میں سے ان کے نزدیک کوئی رکن نہیں ہے۔ جب اسلام کی حقیقت سے اس کا کچھ تعلق نہیں۔ جب اس کے بیان کرنے یا نہ کرنے سے اسلام میں کچھ فرق نہیں پڑتا۔ جب یہ مسئلہ آنحضرتﷺ کے زمانہ کے بعد جلد ہی پھیل گیا تھا۔ جب یہ عقیدہ کئی خواص کا تھا، اولیاء کا تھا اور