کسی مرزائی کے اندر یہ جرأت نہیں ہے کہ وہ مرزاقادیانی کو اس کی اپنی تحریروں کی رو سے ایک سچا اور شریف انسان ثابت کر سکے۔ ہم آگے چل کر مشت نمونہ از خروارے اس کے کذاب ہونے کے چند دلائل پیش کریں گے۔ لیکن اس بحث سے قبل ہم اپنی تائید میں مرزاقادیانی کے دونوں خلفاء کی تحریریں پیش کرتے ہیں۔
حوالہ نمبر۱… ’’جب یہ ثابت ہو جائے کہ ایک شخص فی الواقع مامور من اﷲ ہے تو پھر اجمالاً اس کے تمام دعاوی پر ایمان لانا واجب ہو جاتا ہے۔ الغرض اصل سوال یہ ہوتا ہے کہ مدعی ماموریت فی الواقع سچا ہے یا نہیں۔ اگر اس کی صداقت ثابت ہو جائے تو اس کے تمام دعاوی کی صداقت بھی ساتھ ہی ثابت ہوجاتی ہے۔ اگر اس کی سچائی ہی ثابت نہ ہو تو اس کے متعلق تفصیلات میں پڑنا وقت کو ضائع کرنا ہے۔‘‘ (دعوۃ الامیر ص۴۹،۵۰)
حوالہ نمبر۲… ’’خاکسار (بشیر احمد ایم، اے) عرض کرتا ہے کہ حضرت خلیفہ اوّل (حکیم نورالدین) فرماتے ہیں کہ ایک شخص میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ مولوی صاحب کیا نبی کریمﷺ کے بعد بھی کوئی نبی ہوسکتا ہے۔ میں نے کہا نہیں۔ اس نے کہا کہ اگر کوئی نبوت کا دعویٰ کرے تو پھر؟ میں نے کہا پھر ہم یہ دیکھیں گے کہ کیا وہ صادق اور راست باز ہے یا نہیں۔ اگر صادق ہے تو بہرحال اس کی بات کو قبول کریں گے۔‘‘
(سیرت المہدی حصہ اوّل ص۹۸، روایت نمبر۱۰۹)
ان دونوں حوالوں سے بخوبی معلوم ہو گیا کہ اصل بحث صدق وکذب پر ہونی چاہئے۔ اگر وہ ہو ہی جھوٹا تو پھر اس کے دعاوی وغیرہ پر بحث کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ اب ہم اس بات پر دلائل دیں گے کہ وفات حیات ومسیح پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں۔
حوالہ نمبر۳… ’’اوّل تو یہ جاننا چاہئے کہ مسیح کے نزول کا عقیدہ کوئی ایسا عقیدہ نہیں ہے جو ہمارے ایمانیات کی کوئی جزو یا ہمارے دین کے رکنوں میں سے کوئی رکن ہو۔ بلکہ صدہا پیش گوئیوں میں سے یہ ایک پیش گوئی ہے جس کو حقیقت اسلام سے کچھ بھی تعلق نہیں۔ جس زمانہ تک یہ پیش گوئی بیان نہیں کی گئی تھی اس زمانہ تک اسلام کچھ ناقص نہیں تھا اور جب بیان کی گئی تو اس سے اسلام کچھ کامل نہیں ہوگیا۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۱۴۰، خزائن ج۳ ص۱۷۱) اس حوالہ سے یہ چند امور واضح ہوئے۔
۱… عقیدہ نزول مسیح مرزائیوں کے ایمانیات کی جز نہیں ہے۔
۲… یہ مسئلہ دین کے ارکان میں سے کوئی رکن نہیں ہے۔