’’قل یایہا الناس انی رسول اﷲ الیکم جمیعاً (اعراف:۱۵۸)‘‘ {کہ اے میرے محبوب اعلان فرمادو کہ میں تم سب کو طرف رسول بن کر آیا ہوں۔}
اور آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’انا رسول من ادرکہ حیاً ومن یولد بعدی (کنزالعمال ج۶ ص۱۰۱)‘‘ {یعنی میں ان تمام لوگوں کا بھی رسول ہوں جو اب زندہ ہیں اور ان کا بھی جو میرے بعد پیدا ہوں گے۔}
اور حضور نبی کریمﷺ نے اپنی امت کی راہنمائی فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’انہ سیکون فی امتی ثلاثون کذابون کلہم یزعم انہ نبی وانا خاتم النّبیین لا نبی بعدی (جامع ترمذی ج۲ ص۴۵)‘‘ {کہ تحقیق میری امت میں تیس بڑے بڑے کذاب پیدا ہوں گے اور ہر ایک کا یہ گمان ہوگا کہ وہ اﷲ کا نبی ہے۔ حالانکہ میں خاتم النّبیین ہوں۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔}
تو اس حدیث میں حضور نبی کریمﷺ نے تصریح فرمائی کہ جھوٹے مدعیان نبوت میری امت میں سے ہوں گے اور امتی اور محمدی ہونے کے مدعی ہوں گے۔ جیسا کہ لفظ ’’فی امتی‘‘ سے ظاہر ہے اور ان کے جھوٹا ہونے کی دلیل یہ بیان فرمائی کہ حالانکہ میں خاتم النّبیین ہوں۔ پس واضح ہوا کہ امتی نبی ہونے کا دعویٰ بھی آیت خاتم النّبیین کے خلاف ہے اور حضورﷺ کے بعد کسی قسم کا کوئی نبی نہیں ہوسکتا۔ پس یہ بھی واضح ہے کہ: ’’لا نبی بعدی میں لا نفی عام ہے۔‘‘
(ایام الصلح ص۱۴۶، خزائن ج۱۴ ص۳۹۳)
اسی وجہ سے ہر مدعی نبوت کے متعلق امام اعظمؒ نے فرمایا جن کے متعلق مرزاقادیانی لکھتا ہے کہ: ’’یہ اپنے علم اور درائت اور فہم وفراست میں ائمہ ثلاثہ باقیہ سے افضل واعلیٰ تھے اور ان کی خداداد قوت فیصلہ ایسی بڑھی ہوئی تھی کہ وہ ثبوت عدم ثبوت میں بخوبی فرق کرنا جانتے تھے اور ان کی قوت مدرکہ کو قران شریف کے سمجھنے میں ایک خاص دستگاہ تھی اور ان کی فطرت کو کلام الٰہی سے ایک خاص مناسبت تھی اور عرفان کے اعلیٰ درجہ تک پہنچ چکے تھے۔
(ازالہ اوہام ص۵۳۰،۵۳۱، خزائن ج۳ ص۳۸۵)
کہ: ’’جو مسلمان کسی مدعی نبوت سے معجزہ طلب کرے وہ بھی کافر ہے۔‘‘ کیونکہ اس کے مطالبہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسے آنحضرتﷺ کے خاتم النّبیین ہونے میں شک ہے۔ دیکھئے! (خیرات الحسان مطبوعہ مصر ص۵۰، سطر نمبر۹)
اردو ترجمہ موسوم یہ جواہر البیان ص۱۰۳ اور فتاویٰ عالمگیری ج۲ ص۲۶۳ پر موجود ہے