پیدائش ان سے پہلے ہوچکی تھی تو جس طرح مرزا کے بھائی کا اس ملک کو چھوڑ کر قادیان میں آنا مرزا کے خاتم الاولاد ہونے کے منافی نہیں۔ ایسے ہی عیسیٰ علیہ السلام کا اس وقت تشریف لانا حضور پرنورﷺ کی خاتمیت کے منافی نہیں۔ اس لئے کہ ان کو پہلے نبوت مل چکی ہے۔ فقط!
باقی رہا یہ کمینہ عذر کہ معاذ اﷲ مسلمان آنحضرتﷺ کو اینٹ سے تشبیہ دیتے ہیں۔ سو مرزائیوں کو یہ بات کہتے ہوئے شرمانا چاہئے۔ اس لئے کہ اگر اس پر کوئی اعتراض ہوسکتا ہے تو وہ حدیث پر نہ کہ اس شخص پر جو اس کو نقل کر رہا ہے۔ حضورﷺ کی غرض اس حدیث کے بیان فرمانے سے محض اپنی امت کی تفہیم مقصود ہے۔ مگر مرزائی یہودی صرف ایک وقتی اعتراض کر کے عہدہ برآ ہونا چاہتا ہے۔ سچ ہے ؎
بے حیا باش ہرچہ خواہی کن
حدیث ہشتم
’’قال رسول اﷲﷺ لعلیؓ انت منی بمنزلۃ ہارون من موسیٰ الّا انہ لا نبی بعدی (بخاری ج۲ ص۶۳۳، مسلم ج۲ ص۲۷۸، باب مناقب علیؓ)‘‘ {اے علی تیرے اور میرے درمیان وہ نسبت ہے جو کہ موسیٰ اور ہارون کے درمیان تھی۔}
سوال یہ ہے کہ ان دونوں کے درمیان کون سی نسبت تھی۔ ظاہر ہے کہ وہ نسبت دو امور پر مشتمل تھی۔ ایک قائم مقامی دوسرے اشتراک فی النبوۃ۔ اب حضرت علیؓ کو انہیں دو امور کے متعلق اشتباہ ہوسکتا تھا۔ یعنی قائم مقامی واشتراک فی النبوۃ حالانکہ حضورﷺ کو ایک امر کا اثبات اور ایک کا انقطاع فرمانا مقصود تھا۔ لہٰذا حضورﷺ نے یہ خیال فرما کر کہ کہیں حضرت علیؓ یہ نہ سمجھ لیں کہ جس طرح حضرت ہارون علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی عدم موجودگی میں ان کے قائم مقام تھے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام مستقل نبی تھے اور حضرت ہارون علیہ السلام ان کے تابع ہوکر نبی تھے۔ ایسا ہی میں بھی حضورﷺ کی عدم موجودگی میں آپﷺ کا قائم مقام ہوں اور آپﷺ کے تابع ہوکر نبی ہوں۔ اس لئے حضورﷺ نے ایک امر کا اثبات فرمادیا۔ یعنی قائم مقامی کا اور دوسرے کے متعلق ’’لانبی بعدی‘‘ کہہ کر اس نبوت کی نفی کر دی جو کہ حضرت ہارون علیہ السلام میں تھی یعنی غیرتشریعی۔
حدیث نہم
’’قال النبیؓ لوکان بعدی نبی لکان عمر ابن الخطاب (ترمذی ج۲ ص۲۰۹)‘‘ {اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا۔}