الف… حضورﷺ نے یہ قول حضرت عمرؓ کی مدح میں فرمایا ہے اور مقام مدح کا تقاضا یہ تھا کہ اگر آپﷺ کے بعد کسی قسم کی نبوت باقی ہوتی تو آپﷺ حضرت عمرؓ کے لئے اس کا اثبات فرماتے نہ کہ نفی کرتے۔ پس آپﷺ کے مطلقاً نفی فرمانے سے معلوم ہوا کہ آپﷺ کے بعد کسی قسم کا نبی نہیں آسکتا۔
ب… اگر حدیث میں نبی مستقل کی قید لگائی جائے اور معنی یہ کئے جائیں کہ اگر میرے بعد کوئی مستقل نبی ہونا ہوتا تو حضرت عمرؓ ہوتا۔ اس صورت میں حضرت عمرؓ کا نبی غیرمستقل ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ حضورﷺ نے حضرت عمرؓ کو منصب نبوت کے قابل ومستحق بنایا ہے اور نبوت کے ملنے سے مانع صرف نبوت کا ختم ہونا فرمایا ہے۔ پس جب نبوت غیرمستقل ختم نہیں ہوئی تو اس کے ملنے سے کوئی مانع نہیں۔ لہٰذا وہ ضرور نبی ہونے چاہئیں۔ حالانکہ وہ نبی نہیں تھے۔ اگر ہوتے تو دعویٰ نبوت ضرور کرتے۔ کیونکہ نبی کے لئے دعویٰ نبوت کا اخفاء قطعاً جائز نہیں۔ جب انہوں نے دعویٰ نبوت نہیں کیا اور نہ ہی اہل اسلام میں سے کسی نے ان کو نبی مانا ہے تو معلوم ہوا کہ وہ نبی نہ تھے۔ تو اب آپ غور فرماسکتے ہیں کہ جو سب سے زیادہ مستحق نبوت ہو اور جس کا مستحق ہونا رسول اﷲﷺ کی زبان مبارک سے ثابت ہو اس کو تو نبوت نہ ملے اور منشی غلام احمد صاحب قادیانی نبی بن جاویں یہ امر عقلاً محال ہے۔
حدیث دہم
’’ان الرسالۃ والنبوۃ قد انقطعت فلا رسول بعدی ولا نبی بعدی‘‘
(ترمذی شریف ج۲ ص۵۳)
یعنی رسالت اور نبوت منقطع ہوچکی ہے۔ پس میرے بعد کوئی رسول اور کوئی نبی نہیں ہوگا۔ اس کی بابت مرزاقادیانی فرماتے ہیں۔ ’’ابھی ثابت ہوچکا ہے کہ وحی ورسالت تابہ قیامت منقطع ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام مطبوعہ لاہور ص۶۱۴، خزائن ج۳ ص۴۳۲)
نیز (آئینہ کمالات ص۳۷۷، خزائن ج۵ ص ایضاً) پر لکھتے ہیں: ’’ماکان اﷲ ان یرسل نبیا بعد نبینا خاتم النّبیین وما کان ان یحدث سلسلۃ النبوۃ ثانیا بعد انقطاعہا‘‘ یہ ہرگز نہیں ہوگا کہ اﷲتعالیٰ ہمارے خاتم النّبیین کے بعد کسی کو نبی کر کے بھیجے اور نہ یہ ہوگا کہ سلسلہ نبوت کو اس کے منقطع ہو جانے کے بعد پھر جاری کرے۔ (حمامتہ البشریٰ ص۲۰، خزائن ج۷ ص۲۰۰) پر مرزاصاحب لکھتے ہیں کہ: ’’قد انقطع الوحی بعد وفاتہ وختم اﷲ بہ النبیین‘‘ بے شک آپ کی وفات کے بعد وحی منقطع ہوگئی ہے اور اﷲتعالیٰ نے آپ پر نبیوں کا خاتمہ کر دیا ہے ۔