رات دن بے تاب ہے جان حزین
ہیکلی دل میں ہے ہر دم حسرتا
چھوڑ دے اے دل نہ کر شور و شغب
کر بیان اب اصل اپنا مدعا
چان کی چوبیسویں منگل کا دن
اور مہینہ ربیع الثانی کا تھا
گردش گردوں دوں سے دوستو
جب چراغ قادیان گل ہوگیا
فکر سال فوت جب مجھ کو ہوئی
سال رحلت کو کرے پورا وکیل
ہاتف غیبی نے فوراً کہہ دیا
صادق و کاذب کا بس جھگڑا چکا
راقم! چرا کارے کند عاقل کہ باز آید پشیمانی
اب کتاب ختم ہے۔ امید ہے کہ ناظرین اس سے سبق عبرت حاصل کر کے اس کھلے گمراہ فرقے سے مجتنب رہ کر سواد اعظم مسلمانوں کی بڑی جماعت کا ساتھ نہ چھوڑیں گے۔ یہی اہل حق ہیں۔ قیامت تک غالب رہیں گے۔ ’’الا ان حزب اﷲ ہم الغٰلبون‘‘ والسلام!
راقم خاکسار: ابوالفضل محمد کرم الدین عفا عنہ دبیر
متوطن بھیں ضلع جہلم، اپریل ۱۹۳۲ئ
نظم دلکش
قدرت سے تیری مولیٰ حیرت میں ہے خدائی
جلوے ہیں نت نرالے واہ شان کبریائی
ہے کون جو کہ تجھ بن عظمت کی لاف مارے
جس نے کیا ہے دعویٰ اس نے ہے منہ کی کھائی
کس زور سے تھے نکلے میداں میں میرزائی
کہتے تھے کوئی دم میں کر دیں گے سب صفائی
ٹھہرے مقابلہ میں طاقت بھلا ہے کس کی
کر دیں تباہ پل میں جس پر کریں چڑھائی
چھیڑا مقدمہ کا یہ سلسلہ انہوں نے
سمجھے کہ اس سے حاصل ہوگی بہت بڑائی
بس ایک دو ہی دن میں میدان جیت لیں گے
مچ جائے گی جہاں میں اک فتح کی دوہائی
لیکن نہ جانتے تھے منظور ہے خدا کو
دکھلائے اپنی قدرت تا دیکھ لے خدائی
بخشی حریف کو پس اﷲ نے استقامت
میداں میں شیر غراں دینے لگا دکھائی