کر رہی دنیا ہے جن پر اعتراض
ایک بھی جن سے نہیں سچا ہوا
وہ نشان غضب رب عالم کباب
جس کی پیدائش کا اک الہام تھا
دیر تک ہم منتظر اس کے رہے
آج تک لیکن نہیں پیدا ہوا
وہ نکاح آسماں دل پذیر
جس کا سہرا تم نے باندھا برسما
گردش قسمت سے اے جان جہاں
یہ تیرا ارمان دل میں ہی رہا
میرزا اور میرزانی کو ہوئی
نوجوانی کب بڑھاپے میں عطا
ہے مبارک کا کہاں نعم البدل
تبصرہ میں ذکر ہے جس کا لکھا
عمر اسی سال تیری کب ہوئی
کب زلازل آئے یہاں محشر نما
بچ رہے گا قادیاں طاعون سے
سچ کہو تم ہی کہ کب وہ بچ رہا
تو نے کب تکمیل کی مینار کی
خرچ جس پر تھا ہزاروں تک ہوا
تیرے کپڑوں سے ہیں ڈھونڈیں برکتیں
بادشاہاں نے جہاں نے کب بھلا
ہیں مخالف جاگتے جیتے تمام
دن بدن ہے جوش ان کا بڑھ رہا
چھوڑتا پیچھا نہیں امرتسری
منہ دکھا سکتے نہیں اس کو ذرا
لے گیا میدان بازی ڈاکٹر
ہم رہے پڑھتے تیرا وہ تبصرا
بن نہیں پڑتی مقابل غیر کے
کرتے ہیں گو عقل سوزی دائما
قادیاں مشہور تھا دارالامان
چلتی تھی یہاں شادمانی کی ہوا
بن گیا دارالاماں دار الحزن
چل گئی کیسی الٰہی یہ ہوا
بوستان قادیان کا ہر شجر
سرنگوں باد مخالف سے ہوا
ہے غرض گرداب میں کشتی قوم
اس کو اب اے ناخدا لینا بچا
اے مسیحا ایک دم کے واسطے
حال دیکھو اس دل بیمار کا
حرقت فرقت سے سینہ چاک ہوں
آتش غم سے ہے دل جلتا مرا