آخرش پنجہ سے اے ظالم تیرے
وقت آنے پر نہ ہر گز بچ سکا
ایسے ہی نمبرود اور شداد کو
تو نے چپکے دم کے دم میں آ لیا
آہ! وہ ہامان باسامان بھی
چھوڑ کر دنیائے فانی چل بسا
کر دیا اے موت تو نے کام وہ
جس کا تھا تجھ کو ہمیشہ سے مزا
ہائے یعنی قادیان کا وہ رسول
جس کا تھا شہرۂ جہاں میں مچ رہا
جو کہ منصبہائے مہدی اور مسیح
زور بازو سے تھا حاصل کر چکا
جس کی سچائی میں تھا لاکھوں نشاں
آسماں صبح ومسا دکھلا رہا
جس کی اب ادنیٰ سی خفگی سی جہان
مبتلائے رنج طاعون ہو گیا
زلزلوں کی اس قدر کثرت ہوئی
ہو گئی عالم میں اک محشر بپا
تیرے پنجے میں پھنسا ایسا کہ وہ
تا قیامت ہو نہیں سکتا رہا
کہتے ہیں اب تو حواری ہائے ہائے
ہمپہ کیا قہر خدا نازل ہوا
یہ بلائے ناگہانی کالرہ
آ گیا لاہور میں بن کر قضاء
جو ہمارے میرزا کی روح کو
لے کے سوئے عالم برزخ اڑا
چل بسا تو خود تو دنیا سے ولیک
ہم ہیں رنج و غم میں تیری مبتلا
ہم نے جانا قادیاں دار الاماں
اور مانا تجھ کو اپنا مقتداء
ہم نے مانے آپ کے الہام سب
اور تیقن تیری باتوں پر کیا
تو کرشن اور مہدی اور مسیح
آ گیا دنیا میں بن کر رہنما
کہہ دیا جو کچھ کہ تو نے الغرض
ہم نے آمنا وصدقنا کہا
تیرے مرنے پر جو رسوا ہم ہوئے
اس کو یا ہم جانتے ہیں یا خدا
اب مخالف کہتے ہیں سارے ہمیں
پیشوا وہ اب تمہارا کیا ہوا
ہو گئے الہام جھوٹے آپ کے
جھوٹ نکلا آخرش دعویٰ تیرا