نسبت آپ مدتوں سے الہام سنا رہے تھے کہ ایسی بیماریوں سے میں نے بالکل محفوظ رہنا ہے۔ کیونکہ ایسی موت کسی نبی صدیق ولی کے پاس تک نہیں آسکتی۔ (دیکھو بدر ۱۶؍مئی ۱۹۰۷ئ)
طرفہ یہ کہ آپ بڑی تحدی سے پیش گوئیاں کر رہے اور الہام سنا رہے تھے کہ جب تک میرے تمام دشمن میری آنکھوں کے سامنے مر نہ جائیں میں نہیں مروں گا۔ ڈاکٹر عبدالحکیم صاحب نے ۲؍جولائی ۱۹۰۷ء کو پیش گوئی کی تھی کہ مرزا چودہ ماہ تک مر جائے گا اور مرزاقادیانی نے اشتہار تبصرہ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۹۱) میں کھلے طور پر اعلان کر دیا تھا کہ ایسا ہرگز نہ ہوگا۔ بلکہ اس کے برعکس عبدالحکیم نے ہماری آنکھوں کے سامنے مرنا ہے اور ہماری عظیم الشان پیش گوئی پوری ہونی ہے۔ لیکن چونکہ یہ ساری باتیں اٹکل پچو تھیں اور منجانب اﷲ نہ تھیں۔ سب بیکار گئیں۔ جیسا کہ عبدالحکیم نے الٰہی تفہیم سے پیش گوئی کی تھی وہ حرف بحرف پوری ہوکر لکل فرعون موسیٰ کے مضمون کو ثابت کر گئی اور مرزاقادیانی کے دعاوی منجانب اﷲ نہ ہونے پر مہر ہوگئی۔ ’’جاء الحق وزہق الباطل ان الباطل کان زہوقا‘‘ مرزاقادیانی ہرچند اپنی زندگی میں اس بات کے مدعی تھے کہ آپ دین اسلام کی حمایت اور مخالف ادیان کے قلع قمع کے لئے مبعوث ہوئے ہیں۔ لیکن دین اسلام کو آپ کے وجود مسعود سے کچھ فائدہ نہ پہنچا۔ مخالف ادیان کے لوگوں کو اسلام سے مشرف کرنا تو بجائے خود رہا آپ نے کروڑہا مسلمانان روئے زمین کو جو آپ کی رسالت کا کلمہ نہ پڑھیں۔ اسلام سے خارج کر دیا اور کافر کہہ دیا اور اس بات پر اپنی موت سے پہلے تین چار روز بھی جب مسٹر فضل حسین بیرسٹر لاہور نے اس بارہ میں آپ سے گفتگو کی۔ بضد قائم رہے۔ تفرقہ ایسا پھیلایا کہ بھائی کو بھائی سے باپ کو بیٹا سے الگ کر دیا۔ اپنی جماعت کے آدمیوں کو مسجدوں میں جاکر باقی مسلمانوں کے ساتھ جماعت نماز میں شامل ہونے سے روکا۔ بلکہ ایک دوسرے کو سلام علیک کہنے سے بھی روک دیا۔ حج وزکوٰۃ کی ادائیگی آپ کے ملنے والوں سے قطعی چھوٹ گئی۔ نماز میں تخفیف دو تین کوس جانے سے بھی قصر نماز اور افطار روزہ کی اجازت عام تھی اور ذکر واذکار مجاہدات وریاضت کثرت عبادت کے تمام طریقے جو سلف صالحین میں زمانہ نبوت سے شروع