ہوکر آج کل چلے آتے تھے۔ بدعت ضلالت میں داخل ہونے کا حکم دیا گیا تھا۔ فخر وتعلی کا یہ حال تھا کہ خود کو حضرت علیؓ اور امام حسنؓ وحسینؓ سے افضل سمجھتے تھے۔ عموماً مرزائی اخبارات میں ایسے کلمات آپ کی طرف سے ہمیشہ شائع ہوا کرتے تھے کہ ایک تم میں ہے جو علیؓ سے بہتر ہے اور کہ صد حسین ست درگریبانم!
حالانکہ آج تک امت محمدیہ سے کسی بزرگ اسلام کو ایسا کہنے کی جرأت نہ ہوئی تھی۔ یہاں تک ہی بس نہ تھی۔ بلکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی افضلیت کا ادّعا تھا اور پکار کر کہتے تھے ؎
اینک منم کہ حسب بشارات آمدم
عیسیٰ کجاست تابنہد پابمنبرم
(درثمین فارسی ص۷۹)
اور کہ ؎
ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو
اس سے بہتر غلام احمد ہے
(درثمین اردو ص۲۲)
مرزاقادیانی کے دعاوی شرک جلی سے اجلیٰ تک پہنچ چکے تھے اور کہتا تھا کہ زمین وآسمان میرے تابع ایسے ہیں جیسے خدا کے تابع اور کہ میں خدا سے ہوں اور خدا مجھ سے اور میں خدا کی اولاد کے جابجا ہوں۔ وقس علیٰ ذلک!
حالانکہ قرآن کریم نے ایسی باتوں کی بزور تردید کر دی ہوئی تھی۔ خیر جیسے دعاوی زبردست تھے۔ ایسا ہی مرزاقادیانی کا خاتمہ بھی نرالے طور پر ہوا۔ دارالامن (قادیان) سے جلاوطن ہوکر دارغربت لاہور میں داعی اجل کو لبیک کہا۔ ہیضہ کی موت (جس کو کتے کی موت سے تعبیر کیا کرتے تھے) سے مرنا ڈاکٹروں، حکیموں کی تدابیر کا خاک میں مل جانا علماء کرام کا باربار دعوت مناظرہ دینا پانچ ہزار روپیہ بھی پیش کرنا۔ مرزا کا میدان میں نہ نکلنا۔ حضرت حاجی صوفی سید جماعت علی شاہ صاحب دام برکاتہم کا بائیس مئی کو ہزارہا آدمیوں کے روبرو شاہی