سے لیکچروں اور وعظوں کے جلسے منارہے تھے۔ یکایک ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء بروز سہ شنبہ مرض ہیضہ میں مبتلا ہوکر دن کے دس بجے اس دار فانی سے عالم جاودانی کو سدھار گئے۔ ’’انا ﷲ وانا الیہ راجعون‘‘ لاہور سے ایک نامہ نگار اطلاع دیتے ہیں۔ پانچ بجے آپ کا جنازہ پولیس کی حفاظت میں اسٹیشن ریلوے پر پہنچایا گیا اور اس وقت صرف پچیس تیس آدمی جنازہ کے ساتھ تھے۔ آپ کی نعش قادیان پہنچائی گئی۔ اﷲ اکبر! اس واقعہ عبرت افزاء سے دنیا ناپائیدار کی بے ثباقی کا نقشہ آنکھوں نے سامنے پھر جاتا ہے۔ مرزاقادیانی تو کس دہن سے اپنے لن ترانیوں میں لگے ہوئے۔ علماء دنیا کو گھور رہے اور ان کو موت کی دھکمیاں دے رہے تھے کہ ناگاہ اجل نے ان کو خود ہی آد بوچا ؎
مادرچہ خیالیم وفلک درچہ خیال
کارے کہ خدا کند فلک راچہ مجال
آن کی آن میں کام تمام ہوگیا مرزاقادیانی کی موت کا عبرتناک نظارہ اس قابل ہے کہ اہل بصیرت اس کی طرف آنکھ کھول کر دیکھیں وہ انسان جو بہت بڑے دعاوی (رسالت ونبوت بلکہ الوہیت) کا مدعی تھا جو کہتا تھا کہ خدا نے مجھے پکار کر کہہ دیا ہے کہ ’’انی معک فی کل مؤطن‘‘ (بدر مورخہ ۲۳؍جنوری ۱۹۰۸ئ، تذکرہ ص۷۴۸ طبع سوم)
’’انی انا الرحمن اصرف عنک اسؤ الاقدار‘‘
(بدر مورخہ ۷؍جنوری ۱۹۰۸ئ، تذکرہ ص۶۹۲، طبع۳)
یعنی میں (خدا) ہر موقع میں تیرے ساتھ ہوں۔ (۲)میں رحمان تیری طرف سے برے مقدر کو پھیر دوں گا۔ ایسی بے کسی اور بے بسی کی حالت میں جان دے کر اپنے ان تمام الہامات کو جھوٹا کر کے اگلے جہان کو چل دیا نہ تو الہام کنندہ نے رد تقدیر کیا نہ حاذق حکیم اور ڈاکٹر راسخ مرید جو ہر وقت آپ کے ساتھ تھے۔ کچھ مدد کر سکے نہ شان مسیحیت نے ہی کچھ شفا بخشی نہ کئی لاکھ مرید اس اڑے وقت میں کچھ حمایت کر سکے۔ آخر موت کا پیالہ پینا پڑا اور موت بھی وہ جس کی