’’سید خلون جہنم داخرین (غافر:۶۰)‘‘ {عنقریب وہ جہنم میں ذلیل ہوتے ہوئے داخل ہوں گے۔} ’’فسیحشرہم الیہ جمیعاً (النسائ:۱۷۳)‘‘ {عنقریب ان کو اپنی طرف اکٹھا کرے گا۔} ’’وسیعلم الذین ظلموا (الشعرائ:۲۲۷)‘‘ {عنقریب ظالم لوگ جان لیں گے۔}
دیکھئے ان آیات میں سین فعل مضارع پر داخل ہوا ہے اور قیامت کا ذکر ہے۔ اس جگہ بھی قیامت کی نسبت جب ذات واجب الوجود کی طرف کی جاوے تو قیامت بالکل قریب ہے اور اگر ہماری طرف کی جاوے تو بعید۔
اعتراض: یہ دجال آج سے پہلے پورے ہوچکے ہیں۔ جیسا کہ اکمال الاکمال میں لکھا ہے۔
جواب… صریح حدیث کے مقابل اکمال الاکمال والے کا ذاتی خیال سند نہیں حدیث میں قیامت کی شرط ہے۔ بعض دفعہ انسان ایک چھوٹے دجال کو بڑا سمجھ لیتا ہے۔ اسی طرح انہوں نے تعداد پوری سمجھ لی۔ حالانکہ مرزاقادیانی کے دعویٰ نبوت نے وضاحت کر دی کہ ابھی اس کی تعداد میں کمی ہے۔
اعتراض: اس حدیث کو حجج الکرامہ میں حافظ ابن حجر نے ضعیف لکھا ہے۔
جواب… یہ سراسر دروغ بے فروغ ہے۔ لیجئے ہم حافظ ابن حجر کی اصل کتاب کی عبارت جس کا حوالہ دیا گیا ہے پیش کرتے ہیں۔ ’’وفی روایۃ عبداﷲ ابن عمر وعند الطبرانی لا تقوم الساعۃ حتی یخرج سبعون کذابا وسندہ ضعیف وعند ابی یعلیٰ من حدیث انس نحوہ وسندہ ضعیف (ایضاً فتح الباری شرح صحیح مطبوعہ دہلی جزو۲۱ ص۵۶۴)‘‘ طبرانی میں عبداﷲ بن عمر کی ستردجال والی حدیث کی سند ضعیف ہے اور ایسا ہی ابویعلیٰ میں جو انس کی روایت ستردجال والی ہے وہ ضعیف ہے۔ حاصل یہ ہے کہ حافظ ابن حجر نے ستردجال والی روایت کو جو دوطریق سے مروی ہے ضعیف لکھا ہے نہ کہ تیس دجال والی کو۔
فائدہ: اس حدیث میں حضور سید عالمﷺ نے مطلقاً مدعی نبوت کو کاذب فرمایا ہے۔ تشریعی اور غیرتشریعی کی کوئی قید نہیں اور علم اصول کا مشہور قاعدہ ہے کہ ’’المطلق یجری علی اطلاقہ‘‘ یعنی مطلق اپنے اطلاق اور عموم پر جاری رہتا ہے۔ لہٰذا مرزائیوں کا مطلق کو مقید کرنا ان کی جہالت کی دلیل ہے۔
حدیث دوم
’’عن العرباض بن ساریۃ عن رسول اﷲﷺ انہ قال انی عند اﷲ