ملحضا بلفظہ: اور حضرت یوسف پر جو نعمت تمام ہوئی وہ اسی طرح کا اتمام تھا۔ ’’کما اتمہا علیٰ ابویک (یوسف)‘‘ جیسا کہ آپ کے باپ داد پر ہوا تھا۔ یعنی وقتی اور حسب ضرورت زمانہ جیسا کہ ہم اوپر ثابت کر آئے ہیں۔ نبوت صدیقیت شہادت اور صالحیت بلاشبہ انعام ہے۔ اسی طرح صاحب شریعت نبی ہونا بھی انعام ہے۔ جب کہ روز آفرینش میں ہی خدائے لایزال نے تاج نبوت کو مزین وآراستہ کر کے حضور سید عالم رحمۃ اللعالمین راحت العاشقین فداہ امی وابی روحی وجسدی کے سرپر رکھ دیا تو اب ناحق جلنا اور کڑھنا بدباطنوں اور خبیث روحوں کا کام ہے۔ سچ ہے ؎
مہ فشاند نور سگ عو عوکند
آیت ’’وما ارسلنک الا رحمۃ اللعالمین۰ کافۃ للناس۰ انی رسول اﷲ الیکم جمیعا‘‘ کا جواب یہ دیا ہے کہ حضرت موسیٰ تمام بنی اسرائیل کی طرف رسول تھے۔ کیا ان کے بعد بنی اسرائیل کے لئے حضرت داؤد، سلیمان علیہما السلام نبی ہوکر نہیں آئے؟
جواب… ہم پہلے ثابت کر آئے ہیں کہ وہ شریعت ناتمام وناقص تھی۔ اس لئے وقتی ضروریات کے لئے انبیاء کا آنا ضرور تھا اور تورات کے متعلق قرآن شریف میں ہرگز ہرگز حضرت موسیٰ کا یہ دعویٰ موجود نہیں کہ تمام بنی اسرائیل کے لئے صرف میں اکیلا ہی رسول ہوں۔ بہ خلاف اس کے کہ قرآن شریف کامل ومکمل غیرمبدل اٹل قانون اور محمد رسول اﷲﷺ تمام دنیا کے لئے اکیلے رسول ہونے کے مدعی ہیں۔ ’’ارسلت الیٰ الخلق کافۃ وختم بی النبیون‘‘ (صحیح مسلم ج۱ ص۱۹۹)
میں تمام دنیا جہان کی طرف بھیجا گیا ہوں۔ میرے ساتھ نبیوں کا سلسلہ ختم کر دیا گیا ہے۔ ’’انا رسول من ادرکت حیا ومن یولد بعدی‘‘
(کنزالعمال ج۲ ص۲۲۹، طبقات ج۲ ص۱۰۱)
خدا نے سب دنیا کے لئے ایک ہی نبی بھیجا۔ (چشمہ معرفت ص۱۳۶، خزائن ج۲۳ ص۱۴۴) کورہ بالا آٹھ آیات قرآنی اور اقوال مرزا سے بغیر کسی طرح کی کھینچ تان کے بہ عبارت النص ثابت ہوگیا کہ حضور سید عالمﷺ خاتم النّبیین ہیں۔ اگرچہ قرآن شریف میں اور متعدد آیات ایسی ہیں جن سے مسئلہ ختم نبوت ثابت ہوتا ہے۔ مگر ہم انہیں مذکورہ بالا آیات پر اکتفا کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ مختصر رسالہ ان کا متحمل نہیں جس شخص کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان ہو۔ اس کے لئے ایک آیت بھی کافی ہے اور بے ایمانوں کے واسطے تمام قرآن بھی ناکافی۔ اب ہم احادیث نبویہﷺ کا ذکر کرتے ہیں۔ ناظرین غور سے پڑھیں اور ایمان تازہ کریں۔